Umda intekhab26
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے ، وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ، در خورِ محفل نہیں رہا
وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ، اب، کوئی حائل نہیں رہا
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
مرنے کی، اے دل !اور ہی تدبیر کر، کہ میں
شایانِ دست و بازوئے قاتل نہیں رہا
دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل، سوائے حسرتِ حاصل، نہیں رہا
ہوں قطرہ زن بمرحلہ یاس، روز و شب
جز تارِ اشک، جادۂ منزل نہیں رہا
بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا، پر، اسدؔ!
جس دل پہ ناز تھا مجھے ، وہ دل نہیں رہا
Khoobsurat Sharing![]()
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks