umda intekhabشامل تھا یہ ستم بھی کسی کے نصاب میں
تتلی ملی حنوط پرانی کتاب میں
دیکھوں گا کس طرح سے کسی کو عذاب میں
سب کے گناہ ڈال دے میرے حساب میں
پھر بے وفا کو بحرِ محبت سمجھ لیا
پھر دل کی ناؤ ڈوب گئی ہے سراب میں
پہلے گلاب اس میں دکھائی دیا مجھے
اب وہ مجھے دکھائی دیا ہے گلاب میں
وہ رنگِ آتشیں، وہ دہکتا ہوا شباب
چہرے نے جیسے آگ لگا دی نقاب میں
بارش نے اپنا عکس کہیں دیکھنا نہ ہو
کیوں آئینے ابھرنے لگے ہیں حباب میں
گردش کی تیزیوں نے اسے نور کر دیا
مٹی چمک رہی ہے یہی آفتاب میں
اس سنگدل کو میں نے پکارا تو تھا عدیم
اپنی صدا ہی لوٹ کر آئی جواب میں
thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks