Originally Posted by intelligent086 دیپ بن جائیں گے جو پاؤں کے چھالے ہوں گے ہم جو پہنچیں گے تو منزل پہ اجالے ہوں گے جب جنوں ساز نگاہیں تری اٹھیں ہوں گی ہاتھ لوگوں نے گریبان میں ڈالے ہوں گے مدّتوں خون رگِ گُل سے بہے گا یارو پھر کہیں جا کے خزاؤں کے ازالے ہوں گے ہم سفر دشتِ وفا کے تو مجھے یاد تو کر میں نے کانٹے ترے پیروں سے نکالے ہوں گے میں نے پلکوں سے چُنیں چاند کی ٹوٹی کرنیں میری آنکھوں میں ابھی شب کے حوالے ہوں گے چُپ کے موسم میں جو اظہار کی تہمت لے لے اُس نے جذبوں کے تقاضے تو نہ ٹالے ہوں گے جرم چہرے سے کھرچ دے گا مگر دیکھ سلیمؔ آنکھ میلی ہے تو پھر ہاتھ بھی کالے ہوں گے ٭٭٭ Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks