Originally Posted by intelligent086 ٍ وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر کوئی برسات کی جھڑی ہو گی کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی پھول کی اک پنکھڑی ہو گی زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر چاندنی سے صبا لڑی ہو گی اے عدم کے مسافرو ہشیار راہ میں زندگی کھڑی ہو گی کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی التجا کا ملال کیا کیجئے ان کے در پر کہیں پڑی ہو گی موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر زندگی کی کوئی کڑی ہو گی Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks