Originally Posted by intelligent086 مجھ کو شبِ وجود میں تابشِ خواب چاہیے شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے اس سے نبھے گا رشتۂ سود و زیاں بھی کیا بھلا میں ہوں بَلا کا بدحساب اس کو حساب چاہیے امن و امانِ شہرِ دل خواب و خیال ہے ابھی یعنی کہ شہرِ دل کا حال اور خراب چاہیے جانِ گماں ہمیں تو تم صرف گمان میں رکھو تشنہ لبی کو ہر نفس کوئی سراب چاہیے کھُل تو گیا ہے دل میں ایک مکتبِ حسرت و اُمید جون اب اس کے واسطے کوئی نصاب چاہیے Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Awsome Sharing Keeo It up bro Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks