ٹھہروں نہ گلی میں تری وحشت نے کہا تھا
میں حد سے گزر جاؤں محبت نے کہا تھا
دَر تک تیرے لائی تھی نسیمِ نفس انگیزدَم بھر نہ رُکوں یہ تیری نکہت نے کہا تھا
احسان کسی سرو کے سائے کا نہ لوں میںمجھ سے یہ ترے فتنۂ قامت نے کہا تھا
مارا ہوں مشیت کا نہیں کچھ مری مرضییہ بھی ترے قامت کی قیامت نے کہا تھا
دل شہر سے کر جاؤں سفر میں سوئے دنیامجھ سے تو یہی میری سہولت نے کہا تھا
Similar Threads:
Bookmarks