Originally Posted by intelligent086 یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے، نہ گئے کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے اب وہ نیندوں کا اُجڑتا تو نہیں دیکھیں گے وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چرائے نہ گئے بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے تیز بارش ہو، گھنا پیڑ ہو، اِک لڑکی ہو ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks