Originally Posted by intelligent086 گئے موسم میں جو کھِلتے تھے گلابوں کی طرح دل پہ اُتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے جل چکے ہیں مرے خیمے، مرے خوابوں کی طرح ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک اولیں لمحوں کے گُلنار حجابوں کی طرح وہ سمندر ہے تو پھر رُوح کو شاداب کرے تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار میرے رِستے ہُوئے زخموں کے حسابوں کی طرح یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں کی طرح کون جانے نئے سال میں تو کس کو پڑھے تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک گاہے گاہے، ترے دلچسپ جوابوں کی طرح ہجر کی سب، مری تنہائی پہ دستک دے گی تیری خوشبو ، مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks