Originally Posted by intelligent086 چاند میری طرح پگھلتا رہا نیند میں ساری رات چلتا رہا جانے کس دُکھ سے دل گرفتہ تھا مُنہ پہ بادل کی راکھ ملتا رہا میں تو پاؤں کے کانٹے چُنتی رہی اور وہ راستہ بدلتا رہا رات گلیوں میں جب بھٹکتی تھی کوئی تو تھا جو ساتھ چلتا رہا موسمی بیل تھی مَیں ، سُوکھ گئی وہ تناور درخت، پَھلتا رہا سَرد رُت میں ، مُسافروں کے لیے پیڑ ، بن کر الاؤ ، جلتا رہا دل ، مرے تن کا پھُول سا بچّہ پتّھروں کے نگر میں پلتا رہا نیند ہی نیند میں کھلونے لیے خواب ہی خواب میں بہلتا رہا *** Nice Sharing ...... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ...... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks