کمزوردماغ کو تیز بنانے کے10نسخے!
ظفر اقبال
انسان ایک عرصے سے کبھی بادام اور اخروٹ کھا کر، کبھی ذہنی آزمائش کی وزرشیں کرکے اورکبھی مختلف دواؤں اور طریقوںسے اپنا دماغ بڑھانے کی کوششیں کررہاہے، مگر دوسری جانب کوئی چپکے چپکے اس کا دماغ کھا جاتاہے۔اور یہ کوئی محاورے والا ’’دماغ کھانا‘‘ نہیں بلکہ حقیقتاً دماغ کھایا جاتاہے اور وہ بھی کچھ اس انداز سے جیسے چوہا چیزیں کتردیتا ہے۔ ہمارا دماغ اپنی تمام سرگرمیاں مخصوص خلیوں کے ذریعے جنہیں نیوران کہا جاتا ہے،انجام دیتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق انسانی دماغ میں نیوران کی تعداد تقریباً اتنی ہی ہے جتنی کہ اس کائنات میں موجود سیارے اور ستارے، یعنی ایک کھرب سے زیادہ۔ہمارا دماغ ایک کمپیوٹر چپ کی طرح ہے، جس میں کروڑوں سرکٹ ہیں، جو بجلی پر کام کرتے ہیں۔ دماغ اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا کرتا ہے۔ ہمارے دماغ میں موجود برقی قوت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مقدار 10 سے 23 واٹ کا بلب روشن کرنے کے لیے کافی ہے۔دماغ کو اپنے کاموں کی ادائیگی کے لیے گلوکوز اور آکسیجن کی ضرورت ہے، جو اسے خون مہیا کرتا ہے۔ ہمارے خون کی 20 فی صد گردش دماغ کی جانب ہوتی ہے۔ ہمارا جسم خوراک سے جتنی گلوکوز پیدا کرتا ہے اس کا 25 فی صد دماغ خرچ کرڈالتا ہے اور ہمارے پھیپھڑے اپنے اندر جتنی آکسیجن جذب کرتے ہیں ، اس کا بھی20 فی صد حصہ دماغ ہی کے استعمال میں آتا ہے۔ دماغ کو جسم کے حکمران کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک اوسط انسانی دماغ کا وزن تقریباً تین پونڈ ہوتا ہے ، یعنی ہمارے جسم کا محض دو فی صد۔ گویا جسم کے زیادہ تر وسائل کو اس کا یہ انتہائی مختصر حصہ استعمال کرتاہے۔ اس اعتبار سے دماغ کئی ترقی پذیر ممالک کے اختیارات اور وسائل پر قابض حکمران اشرافیہ کا کردار ادا کرتا ہے،مگر دماغ کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جسم کے ہر حصے کی تکلیف محسوس کرتا ہے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر وہ اپنی ذات کے دکھ اور تکلیف سے بے نیاز ہوتا ہے۔ چاہے اسے کاٹ کر دولخت ہی کیوں نہ کردیا جائے ، اسے اپنی کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ اس میں اپنا دکھ محسوس کرنے کے اعصاب موجود نہیں ہوتے۔تاہم عمر بڑھنے کے ساتھ ہمارا دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ ہم چیزوں کی بابت بھولنے لگتے ہیں اور معمے حل کرنا ماضی جیسا آسان کام نہیں رہتا۔ اگرچہ بڑھاپے کے عمل کو واپسی کا راستہ دکھانا تو ممکن نہیں، مگر اپنے دماغ کو ضرور ہم ہر عمر کے مطابق فٹ رکھ سکتے ہیں۔انٹرنیشنل فیڈریشن آن ایجنگ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق اکثر افراد اس بات سے لاعلم ہیں کہ دماغ کو کیسے صحت مند رکھا جاسکتا ہے: دماغی کھیل!جی ہاں! اگر آپ روزانہ اخبارات میں کراس ورڈز یا دیگر معموں کو حل کرنے کے شوقین ہے ،تو یہ عادت آپ کے دماغ کیلئے فائدہ مند ہے۔بنیادی ریاضی اور اسپیلنگ اسکلز کی مشق جیسے دماغی کھیلوں کا مطلب یہ ہے، آپ اپنے دماغ کو زیادہ چیلنج دے رہے ہیں، جو اسے تیز رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دماغی ورزش:جسمانی ورزشیں درحقیقت دماغ کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں، روزانہ 30 منٹ سے ایک گھنٹے تک ورزش جیسے یوگا، چہل قدمی، سائیکلنگ، تیراکی اور دیگر وغیرہ بہت آسان بھی ہیں اور تفریح سے بھرپور بھی، جس سے دماغ کو گرمی کے موسم سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد بھی ملتی ہے۔ دماغی خوراک: خوراک میں صحت بخش اجزاء کا استعمال ہی صحت مند دماغ کی ضمانت ہوتے ہیں، مضر صحت اجزاء جیسے کیفین ، تمباکو نوشی اور الکوحل کا استعمال محدود تو کرنا ہی چاہئے، زیادہ نمک کھانے سے بھی بچنا چاہئے کیونکہ یہ ذیابیطس، ہائی بلڈپریشر اور فالج جیسے امراض کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ چوکنادماغ :دن بھر میں کچھ منٹ اپنے دوستوں سے کسی بھی موضوع پر بات کرنے کیلئے وقت نکالیں، اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے گھلنا ملنا دماغ کو چوکنا رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ پُر جوش دماغ:یہ کچھ بھی ہوسکتا ہے جیسے کھانے پکانے کی کوئی نئی ترکیب پڑھ کر اسے سیکھنے کی کوشش کرنا یا کسی نئے لفظ کا مطلب سمجھنا یا اپنے دفتر جانے کیلئے نیا راستہ اختیار کرنا۔ اپنی معمول کی روٹین سے باہر نکل کر کچھ نیا کرنا آپ کے دماغ میں ایک نیا جوش پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ صحت مند دماغ:تحقیقی رپورٹس میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایک سے زائد زبانوں سے واقفیت ایک بڑھاپے میں صحت مند دماغ کا سبب بنتی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ دماغ کو مشکل حالات سے نمٹنے میں مدد بھی ملتی ہے۔ دماغی ڈاکٹر:اگر آپ کی عمر 55 سال سے اوپر ہے تو اپنی دماغی صحت کے حوالے سے ڈاکٹرز سے چیک اپ کرواتے رہیں، کیونکہ اکثر ذہنی امراض کا آغاز 55 سال کی عمر کے بعد ہی ہوتا ہے۔ دماغ اورپڑھنا:کتابوں سے لیکر اخبار پڑھنے تک سب کچھ کے ساتھ مطالعہ آپ کے دماغ کو نئے الفاظ سیکھنے اور یادداشت بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دماغ اورزیادہ پانی پینا:روزانہ کم از کم چھ سے 8 گلاس پانی کا استعمال صحت مند دماغ کیلئے بہت ضروری ہے۔ دماغ اورموسیقی سننا:موسیقی سے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے اور موسیقی سے دماغی افعال میں بہتری آتی ہے جبکہ ڈیمنیشیا جیسے دماغی مرض پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks