اقتصادی ترقی کا مطلب
ظہیر اختر بیدری

ہمارے ملک میں اگر موٹروے کی تعمیر شروع ہوتی ہے تو حکمرانوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا شروع ہو جاتا ہے کہ ’’ملک ترقی کر رہا ہے‘‘ اگر کوئی بجلی گھر لگانے کی تیاری ہوتی ہے تو عوام کو مژدہ سنایا جاتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے، کوئی انڈر پاس یا اوور ہیڈ بن رہا ہو تو کہا جاتا ہے کہ یہ بھی ملکی ترقی کا ایک حصہ ہے کوئی مل یا کارخانہ قائم ہوتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی آتی ہے تو اسے بھی ملک کی ترقی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے تو اسے بھی ملکی ترقی کا نام دیا جاتا ہے، شاپنگ پلازوں میں خریداری بڑھتی ہے تو اسے بھی ملکی ترقی کا نام دیا جاتا ہے۔ ایکسپورٹ میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ بھی ترقی کی علامت میں شمار ہوتا ہے ،غرض حکومت جو کام کرتی ہے وہ ملکی ترقی میں اضافے کی نشانی ہوتی ہے۔ ہمارے اقتصادی ماہرین تو ترقی کے ایسے ایسے انڈیکیٹر ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا تمام کام ترقی کا ایک حصہ ہوتے ہیں لیکن اس حوالے سے جو سب سے اہم سوال اٹھتا ہے وہ یہ کہ کیا اس نام نہاد ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ رہے ہیں؟ مثال کے طور پر اگر کسی علاقے میں موٹروے تعمیر ہو رہا ہے تو اس میں غریب لوگوں کے لیے نوکریوں کے مواقعے ضرور نکلتے ہیں اور ستم یہ ہے کہ آسمان کو چھوتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے بیروزگاروں کی ایک فوج روزگار کے انتظار میں کھڑی رہتی ہے۔
آپ ذرا کسی انڈسٹریل ایریا میں چلے جائیں ہر مل ہر کارخانے کے گیٹ پر آپ کو بے روزگاروں کا ایک ہجوم نظر آئے گا، جب بے روزگاروں میں حصول روزگار کا مقابلہ شروع ہوتا ہے تو مزدوری کی شرح میں خودبخود کمی آتی ہے اور مزدورکم سے کم اجرت پر کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ یوں مالکان کو نسبتاً سستی لیبر حاصل ہوتی ہے جو ان کے منافعے میں اضافے کا سبب بنتی ہے اور گھٹتی ہوئی اجرتیں مزدوروں کی غربت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار پاکستان جیسے ملکوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہمارے ملکی سرمایہ کار شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے، یہ شکایت بجا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں امن و امان کی فضا بہت خراب ہے اور بیرونی ہی نہیں ملکی سرمایہ دار بھی پاکستان میں سرمایہ کاری سے احتراز کرتے نظر آتے ہیں ورنہ سستی لیبر کے حوالے سے تو پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے بے انتہا کشش رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں ساڑھے چار کروڑ مزدور ہیں جو فارمل اور انفارمل سیکٹر میں کام کر رہے ہیں اول تو بیروزگاروں کے اژدھام میں سب کو روزگار ملنا ممکن نہیں ہوتا جو لوگ روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، وہ زندگی بھر لگی بندھی اجرتوں پر کام کرتے ہیں ۔
ان کی اجرتوں میں مہنگائی کے تناسب سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آبادی کا یہ چوتھا حصہ نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ملکی ترقی اور ترقیاتی منصوبوں میں عوام کا حصہ صرف اور صرف نیم فاقہ کشی ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں لیبر قوانین ہوتے ہیں ٹریڈ یونین ہوتی ہیں جو لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر ہڑتالیں کرتی ہیں اور مزدوروں کی طاقت سے ان کے مطالبات منواتی ہیں۔
ہمارے ملک میں مزدوروں کے لیے ٹریڈ یونین کا نام لینا اتنا بڑا گناہ ہے کہ ٹریڈ یونین کا نام لینے والے کو کان پکڑ کر باہر کردیا جاتا ہے۔ ملکی ترقی کا پروپیگنڈا کرنے والا حکمران طبقہ اور اس کے ایجنٹ معاشی ماہرین بتا سکتے ہیں کہ جس ترقی کا وہ اٹھتے بیٹھتے ذکر کرتے ہیں اس کا فائدہ غریب عوام کو کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ مزدوروں کے ساتھ کسانوں کا نام آتا ہے جو ہماری کل آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ ہیں، مزدور کو تو چھوٹے موٹے کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں لیکن کسانوں ہاریوں کی حیثیت تو دور وسطیٰ کے غلاموں جیسی ہے جس کی زبان ہی نہیں ہوتی صرف دو ہاتھ ہوتے ہیں اور اس کی شریانوں میں گردش کرنے والا خون ہوتا ہے جسے وحشی جاگیردار اور لٹیرے چوس لیتے ہیں۔
یہ ہمارے طبقاتی سماج کا وہ حصہ ہے جس کی سرے سے کوئی فکس آمدنی ہی نہیں ہوتی، فصل پر اسے وڈیرے کچھ اناج بطور اجرت دیتے ہیں جو وقت سے پہلے ختم ہوجاتا ہے اور کسان فاقہ کشی کا شکار رہتا ہے۔ تعداد میں ملک کی اس سب سے بڑی آبادی کو ترقی کا ثمر کس طرح ملتا ہے اور یہ طبقات ملکی ترقی سے کس طرح استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ کیا ہمارا حکمران طبقہ اور اس کے ایجنٹ معاشی ماہرین بتا سکتے ہیں؟ان دو بڑے طبقات کے بعد وہ ملازمین آتے ہیں جنھیں ہم تنخواہ دار طبقہ کہتے ہیں۔
ان میں سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین شامل ہیں انھیں سال میں انکریمنٹ کے نام پر ان کی تنخواہوں میں اس قدر معمولی اضافہ کیا جاتا ہے کہ یہ اضافہ نہ ان کی بنیادی ضروریات پوری کرسکتا ہے نہ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ ہم جس نظام معیشت میں زندہ ہیں، اس میں ترقی کا حق صرف اور صرف اشرافیہ اور اس کے مصاحبین کو حاصل ہے جنھیں جائز و ناجائز ہر طریقے سے دولت کے انبار لنگانے کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔
اقتصادی راہداری کو ملک کی ترقی کا سب سے بڑا منصوبہ کہا جا رہا ہے اور اس منصوبے کا حال یہ ہے کہ اس راہداری کا 120 کلومیٹر حصہ تعمیر کرنے کے لیے 84 ارب کا تخمینہ رکھا گیا تھا چونکہ یہ منصوبہ چین کی مدد سے تعمیر ہو رہا ہے لہٰذا 120 کلومیٹر کی تعمیر کے لیے تین چینی کمپنیوں نے بولی دی، ایک نے 214 ارب کی بولی دی، دوسری نے 225 ارب کی اور تیسری نے 192 ارب کی۔ چین اس راہداری میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس کی ترقی کے ثمرات حاصل کرنا اس کا حق ہے۔ لیکن اس ترقی میں عوام کہاں ہیں؟
Similar Threads:
Bookmarks