google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    Closed Thread
    + Post New Thread
    Page 2 of 2 FirstFirst 12
    Results 11 to 16 of 16

    Thread: علامہ محمد اقبال

    1. #1
      The thing women have yet to learn is nobody gives you power. You just take it. Admin CaLmInG MeLoDy's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,203
      Threads
      2235
      Thanks
      931
      Thanked 1,366 Times in 867 Posts
      Mentioned
      1038 Post(s)
      Tagged
      7965 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Man علامہ محمد اقبال

      السلام علیکم
      شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے نام یہ تھریڈ۔
      ان سے متعلقہ مواد شیئر کیجیئے




      حکیم الامت علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کو خراج تحسین

      ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

      آپ کے کچھ اشعار

      علامہ اقبال کے سینکڑوں اشعار مشہور ہوئے ہیں،علامہ اقبال کے سارے کلام میں سے شاذ ہی آپ کوئی ردی شعر نکال پائیں،یہاں پر اقبال کے مشہور اشعار پیش کیئے جا رہے ہیں
      ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
      ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی

      خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
      خودی ہے تيغ، فساں لا الہ الا اللہ

      ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
      مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

      واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
      اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے

      لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
      زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

      یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
      یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

      یا رب دِل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
      جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے

      ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں
      ابھي عشق کے امتحاں اور بھي ہيں

      ر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
      گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

      آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
      وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

      انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں
      یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

      وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
      اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر

      عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
      نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

      آنکھ جو کچھ دیکھتى ہے, لب پہ آسکتا نہیں
      محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گى

      انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
      شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

      تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
      ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

      مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
      تو میرا شوق دیکھ ، مرا انتظار دیکھ

      دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
      پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

      تُو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
      میں ہی تو ایک راز تھا، سینۂ کائنات میں

      خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
      خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

      مٹا ديا مرے ساقی نے عالم من و تو
      پلا کے مجھ کو مے لا الہ الا ھو'

      ہزار خوف ہو ليکن زباں ہو دل کی رفيق
      يہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طريق

      عقل گو آستاں سے دور نہيں
      اس کی تقدير ميں حضور نہيں

      نگاہ فقر ميں شان سکندری کيا ہے
      خراج کی جو گدا ہو ، وہ قيصری کيا ہے


      کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی
      گستاخ ہے ، کرتا ہے فطرت کی حنا بندی
      خاکی ہے مگر اس کے انداز ہيں افلاکی
      رومی ہے نہ شامی ہے ، کاشی نہ سمرقندی
      سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے
      آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی

      کريں گے اہل نظر تازہ بستياں آباد
      مری نگاہ نہيں سوئے کوفہ و بغداد

      لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
      ہاتھ آ جائے مجھے ميرا مقام اے ساقی

      یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
      قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

      اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
      مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا الله

      کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
      مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

      مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
      نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے

      دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
      کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

      آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر
      اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

      کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
      بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے

      امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
      یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے ، بھولے بھالے ہیں






      Similar Threads:





    2. #11
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال

      ہمارے مسائل اور فکرِ اقبال کے چھ موتی



      سہیل یوسف


      آپ کی شاعری میں فن کےعروج کے ساتھ ساتھ مقصدیت، سوز، درد، مسائل کا حل اور بیمار اقوام کے لیے امید کا سامان سبھی کچھ موجود ہے۔ فوٹو :فائل


      علامہ محمد اقبال ایک عظیم شاعر، پیش گوئی کرنے والے، دانشور، مصلح قوم اور احیائے اسلام کی تڑپ رکھنے والے ممتاز مفکر تھے۔ آپ کی شاعری میں فن کےعروج کے ساتھ ساتھ مقصدیت، سوز، درد، مسائل کا حل اور بیمار اقوام کے لیے امید کا سامان سبھی کچھ موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری نے پوری دنیا کے مظلوم اور محکوم اقوام کو جینے کی ایک امنگ دی ہے اور ان کے اشعار کی بدولت پاکستان کی راہ ہموار ہوئی۔ اقبال کا پورا کلام پڑھنے اور سمجھنے اور عمل کے قابل ہے لیکن ایک حقیر طالب علم کی حیثیت سے میں نے ان کے 6 اشعار یا اشعار کے مجموعے منتخب کئے ہیں جو آج ہمارے قریباً تمام مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

      • (قرآن)

      وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
      اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
      1911 میں اقبال نے عاجزی اور دل کی گہرائیوں سے اللہ رب العزت کے حضور بعض گذارشات کی تھیں جنہیں شکایات بھی کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ’شکوہ‘ نامی اس نظم میں بعض ایسے سوالات تھے جو ہر حساس مسلمان کے دل و دماغ میں جنم لیتے ہیں لیکن اس نظم کے بعض اشعار کو گستاخانہ قرار دیا گیا، اس کے بعد 1913 میں انہوں نے ’جوابِ شکوہ‘ تحریر کی جو عین اسلام اور قرآن کی روشنی میں وہ احکامات و ہدایات ہیں جو اللہ رب العزت ہم سے چاہتا ہے اور یہ شعر بھی اسی معرکتہ الآرا نظم کا ہے جس کے بعد نہ صرف علا مہ اقبال کی مخالفت دم توڑ گئی بلکہ ان کی عزت و وقار میں گراں قدر اضافہ ہوا۔
      آج ہمارے معاشرے میں نگاہ دوڑائیے کہ اسلام کے نام پر کیسی رسوم ایجاد ہوگئی ہیں۔ فرقہ بندی نے امت کا شیرازہ تار تار کردیا ہے۔ آج کا مذہبی طبقہ بھی قرآن کے بجائے اپنے مشاہیر کی کتابوں کو سینے سے لگائے پھرتا ہے، ان سب کا ایک ہی جواب ہے کہ امت قرآن کی جانب لوٹے اور اس پر غوروفکر کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارے۔
      اسی طرح اقبال ایک اور جگہ فرماتے ہیں،
      خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
      ہوئے کس درجہ فقہیانِ حرم بے توفیق
      اقبالیات کے ممتاز ماہر جناب خرم علی شفیق کی ادارت میں شائع ہونے والی ایک کتاب ’اسرار و رموز‘ (جو دراصل اسرارِ خودی) کی شرح ہے، میں اقبال کی فکرِ قرآن کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں،
      ’’قوم کی تنظیم صرف آئین کے ذریعے ہی ممکن ہے، مسلم قوم کا آئین قرآن ہے۔ پتیاں ایک آئین کے تحت جڑ کر گلاب بناتی ہیں۔ کئی گلاب اکٹھے ہو کر گلدستہ بناتے ہیں۔ آواز کو ضبط میں لائیں تو نغمہ بن جاتا ہے اور اگر وہ ضبط میں نہ ہوں تو محض شور وغل ہے۔ اسی طرح قرآن مسلم اُمت کا آئین ہے اور اس کی قوت کا راز بھی، قرآن ہمیشہ رہنے والا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی اور اس کی آیات کسی تاویل کی محتاج نہیں کہ ہر چیز اس میں کھول کر بیان کردی گئی ہے اور یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ خدا کا آخری پیغام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے ذریعے ظاہر کیا گیا، جنہیں تمام انسانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا، اسی طرح قرآن تمام زنجیروں کو توڑ دیتا ہے اور آزاد انسانوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے مگر ظالموں کو بے بس کردیتا ہے۔
      تمہارا ایمان رسومات کا غلام بن گیا ہے۔ اپنی زندگی کا مقصد براہِ راست قرآن میں تلاش کرو۔ اپنے آپ کو اس دورِ زوال کے رہنماؤں کے تخیلات کے حوالے نہ کرو بلکہ اپنے اسلاف کی پیروی کرو۔ یہاں تک کہ تمہارے چمن میں بہار آجائے۔ یہودیوں کو دیکھو کہ صدیوں سے غلامی اور نااُمیدی کا شکار ہیں مگر پھر بھی وہ آج تک ایک قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں کیونکہ وہ اپنے اسلاف کی راہ پر ثابت قدم رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جب ان کی قومیت کے لباس کو تار تار کردیا گیا تو اس وقت بھی موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کی یاد ان کے سینوں میں زندہ رہی۔ امام جعفرصادق رضی اللہ عنہہ کا ذوق و شوق اور رازی کا سا مجاہدہ اب باقی نہیں رہا۔ تمہارے باغ میں اب خزاں چھا گئی ہے لیکن بہار کو کہیں اور تلاش کرنے کی کوشش میں شجر سے اپنا تعلق مت توڑو۔ ایک ٹوٹی ہوئی شاخ بہار کے آنے سے دوبارہ ہری نہیں ہوسکتی اور اختلافات زندگی کی رگ کاٹ دیتے ہیں۔ قومی زندگی خدا کے دیے ہوئے آئین سے ہی تکمیل پاتی ہے۔ چنانچہ قرآن سے کوئی اور مطلب نکالنے کی کوشش مت کرو۔ ۔
      موتی کا باطن بھی اس کے ظاہر کی طرح چکمدار ہوتا ہے اور قرآن وہ موتی ہے جسے خود خدا نے بنایا ہے۔ اسلام کا راز اس کا آئین ہے جس میں ہر چیز کی ابتدا اور انتہا ہے اور عشق ہی اس کی بنیاد ہے۔ آئین تمہارے سامنے مشکلات کھڑی کرکے تمہاری قوت آزماتا ہے تاکہ تم اپنی روح میں چراغ روشن کرلو اور مشکلات کو ریزہ ریزہ کردو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم جو ہر جائز اور نا جائز اور صحیح اور غلط کاعلم رکھتے تھے تمہیں قوت کا یہی نسخہ بتایا ہے۔ اسے حاصل کرو اور اپنے گوشہ عزلت سے نکل آؤ۔ آئینِ خداوندی کا پاک چشمہ اب ہند، ایران اور دوسرے ملکوں کے بیمار نظریات سے آلودہ ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تمہارا دل اپنی ہی دھڑکن سے ڈر جاتا ہے۔ خدا کے طریقوں کی پاکیزگی کی طرف لوٹ جاؤ اور سچے مسلمان بن جاؤ‘‘۔
      یہاں ایک دلچسپ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ بیرونی موچی دروازہ لاہور میں منعقدہ ایک جلسے میں ’جواب شکوہ‘ پہلی مرتبہ سنائی گئی تو حاضرین جھوم اُٹھے اور اس کے ایک ایک شعر کی بولی لگی اور ایک خطیر رقم جمع ہوئی جو بلقان کی جنگ کے لئے ترکی بھیجی گئی۔

      • (اسوہ محمد ﷺ)

      کی محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
      یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
      اسوہ محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے رہنمائی اور ہدایات کا عملی سرچشمہ ہے۔ اقبال نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی حیاتِ مبارکہ پر لاتعداد اشعار کہے جو آج بھی پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ دنیا میں جہاں کہیں خیر اور بھلائی کا نور ہے وہ اسوہ محمدی اپنانے کی وجہ سے ہے۔ اقبال ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم تھے اور ان کی شاعری اس کا ثبوت ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم اسلامی معاشرے کی روح ہیں، اسی لئے اقبال امت سے کہتے ہیں کہ کچھ دیر اپنے دل کے غارِ حرا میں تنہائی اختیار کرو، خودی کا چراغ جلاؤ اور ہَوس کے بت توڑ ڈالو کہ تم خدا کے نائب ہو اور یہی سنتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآل وسلم ہے۔
      قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
      دہر میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے اجالا کردے

      • (وطن پرستی)

      ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
      جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
      بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
      اسلام تیرا دیس ہے، تو مصطفوی صلی اللہ علیہ وآل وسلم ہے
      علامہ محمد اقبال کی فکر درجہ بہ درجہ آگے بڑھتی رہی اور اس کی وجہ ان کے یورپ اور امریکہ میں 3 سال تھے جہاں 1905 سے 1908 تک دورانِ تعلیم ان کی قلبی ماہیت تبدیل ہوگئی اور اس کے بعد ان کی زندگی کے 30 برس انہوں نے نہایت بامقصد، پاکیزہ اور انقلابی شاعری کی، اس کی گواہی خود ان کے ایک شعر سے ہوتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ
      مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
      اس سے قبل اقبال نے ترانہ ہندی کے عنوان سے ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘ کی نظم کہی لیکن فکری نہج تبدیل ہونے کے بعد انہوں نے وطن کو شناخت تو کہا لیکن وطن پرستی کو ایک خوفناک اور تباہ کن شے قرار دیا۔
      اس کے لیے صرف گذشتہ 25 سال کے واقعات پر غور کیجئے، بوسنیا تاراج ہوا لیکن ہم اپنے وطن کی فکر کرتے رہے۔ افغانستان اورعراق تباہ ہوگئے لیکن تمام اسلامی ممالک لمبی تان کر سوتے رہے، اب شام، لیبیا اور عراق کے لاکھوں افراد دربدر ہیں لیکن ہمارے پاس ان مسائل پر غور کرنے کے لئے وقت نہیں۔ اسلامی ممالک نہ ہی متحد ہیں اور نہ ہی کوئی مشترکہ فکر و سوچ رکھتے ہیں بس سب اپنے اپنے وطن کے خول میں بند ہیں لیکن اس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ داعش اور القاعدہ کی صٓورت میں یہ آگ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی لیکن اب بھی اسلامی ممالک کی مشترکہ حکمتِ عملی نظر نہیں آتی کیونکہ ہم نے اسلام کی ڈور کو کمزور کر دیا ہے۔ دوسری جانب یورپ کے درجن سے اوپر ممالک ہزاروں اختلافات کے باوجود مشترکہ ایجنڈے اور کرنسی پر متحد ہوچکے ہیں۔
      اقبال قومیت اور وطنیت کے بجائے پوری انسانیت کے علمبردار تھے جس کا اظہار اس شعر سے بھی ہوتا ہے، ذرا غور فرمائیے۔
      اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
      پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم!
      تفریقِ ملل حکمت افرنگ کا مقصود
      اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم!
      مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
      جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم!

      • (تقدیر پرستی اور بے عملی)

      خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
      عمل سے فارغ ہوا مسلمان بنا کے تقدیر کا بہانہ
      اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ تقدیر پرستی ہماری رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے۔ روزانہ ہم یہ الفاظ سنتے ہیں ’تقدیر میں یہی لکھا تھا‘ یا ’یہی نصیب میں تھا‘ وغیرہ۔ علامہ اقبال تقدیر پرستی کے سخت مخالف نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے اور ایک عام آدمی بھی اپنے معاشرے کی تقدیر سنوار سکتا ہے کیونکہ اقوام کی تقدیر عام افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اس لئے علامہ محمد اقبال عمل پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمل ہر کامیابی کی کنجی ہے اور یہ شعر بہت حد تک نصیب اور تقدیر پرستی کو رد کرتا ہے ملاحظہ فرمایئے۔
      عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
      یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
      اقبال نے فارسی ’’مثنوی اسرارورموز‘‘ میں بیان کیا،
      ’’اٹھ اور دوبارہ ایسا قانون لا جو اخوت پر مبنی ہو۔ ایسا جام جس کے اندر محبت کی شراب ہو۔ پست ہمت لوگوں کا ہتھیار صرف کینہ ہے۔ ان کی زندگی کا صرف یہی ایک دستور ہے۔ ذلت کی گہرائی میں پڑا ہوا انسان اپنی ناتوانی کو قناعت کا نام دیتا ہے‘‘۔
      ہر معاملے میں تقدیر پر بات کرنے والوں کے لئے اقبال کا ایک اور شعر،
      تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
      مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند

      • (یقین اور آرزو)

      غلامی میں نہ کام آتی ہیں نہ شمشیریں نہ تدبیریں
      جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
      موجودہ عہد میں مینجمنٹ، کیریئر اور مائنڈ سائنسز کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی چیز کی شدید آرزو اور اس کے حصول کا یقین تمام مشکلات کو کم کرکے ہمیں اس راہ پر لے جاتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ہر مشکل میں یقین کامیابی کی نوید ہے اور یقین سے عمل اور کامیابی کے راستے نکلتے ہیں۔
      ایک مقام پر اقبال کہتے ہیں کہ دل میں آرزو نہ ہو تو یہ مردہ دل کی علامت ہے اور آرزو ہی دراصل امنگ اور امید کا نام ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ سائنسی ایجادات ہوں، انسانیت کی فلاح کے راستے ہوں، معاشرتی رسوم و رواج ہوں یا تعمیرات، وہ آرزو سے ہی پھوٹتی ہیں۔ اس لئے عزم اور آرزو رکھنا ضروری ہے اور اس کے حٓصول کے لیے یقین لازم ہے کیونکہ بے یقینی موت ہے۔
      مینجمنٹ کے ماہرین کہتے ہیں کہ جب آپ کسی معاملے اور مقصد کا یقین کرلیتے ہیں تو خود بخود اس کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے۔

      • (نوجوانوں سے مخاطب)

      محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
      ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
      علامہ اقبال جوانوں کو اپنی امید قرار دیتے ہیں اور آج ہماری نوجوان نسل اپنے مقصد اور منزل کو بھلا کر بھٹک چکی ہے۔ اقبال اپنی فکر جوانوں کو دے کر انہیں بزرگوں کا بھی رہنما بنانا چاہتے تھے۔ علامہ محمد اقبال چاہتے تھے کہ نوجوانوں کو اپنے اسلاف کی روشن مثالوں پر چلنے کی تلقین کرتے رہے اور ایک جگہ فرماتے ہیں۔
      تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
      تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
      علامہ محمد اقبال چاہتے تھے کہ ملت کے جوان مایوسی، بےعملی اور کاہلی کو چھوڑ کر اپنا مقام پہچانیں اور عمل کو اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ وہ خودی کو اپنا کر فقیری میں بھی عزتِ نفس کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں اور اقبال کے نزدیک خودی کی تربیت کے تین مراحل ہیں، اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی۔




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    3. #12
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال

      نذرِ اقبال



      پروفیسر سیما سراج


      اے حکیم الامت، اے دانائے راز، ہر عقیدت مند کو ہے تیری دانائی پہ ناز فوٹو:فائل

      تیرا حُسن شاعری درس شعور و آگہی
      روز و شب کی گردشوں میں عزمِ نو کی روشنی
      ہر کسی کے آگے جھکنا موت ہے انسان کی
      سربلندی کے لئے لازم ہے احساسِ خودی
      تھا ترے قلب و نظر میں موجزن عشق رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم
      ہر طلب ہر آرزو جس کے سوا کارِ فضول
      دین و دنیا کی بصیرت تیرا نصب العین تھا
      قوم کے ہر فرد نے جس کو کیا دل سے قبول
      سوز تھا تیرا سخن اور روح پرور تھا پیام
      محرمِ مہر و وفا دل اور گہری تھی نظر
      اک مسیحا، ایک رہبرِ شاعر شعلہ نفس
      جس کا ہر اک شعر دلکش جاں فزا جادو اثر
      ہے یہ تیرے دلنشیں افکار کا کیسا کمال
      ریگزاروں میں جلے ہیں لالہ و گل کے دیے
      شاعری ہے یا ترے جذبِ دروں کا معجزہ
      جس نے آزادی کے تازہ ولولے پیدا کئے
      کالے بادل ظلم کے چھائے ہوئے تھے قوم پر
      ان اندھیروں میں جلائے اپنے جذبوں کے چراغ
      روشنی سے ان چراغوں کی ملے وہ راستے
      جن پہ چل کر ہم نے پایا اپنی منزل کا سراغ
      اے حکیم الامت، اے دانائے راز
      ہر عقیدت مند کو ہے تیری دانائی پہ ناز
      خدمتِ اقدس میں یہ نذرانہِ شعر و سخن
      پیش کرنے آئی ہے سیما ؔ بصدِ عجز و نیاز






      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    4. #13
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال

      اقبال، چھٹی اور لبرل پاکستان


      سید امجد حسین بخاری


      پہلے نصاب سے اقبال کی شاعری اور نصاب میں موجود مضامین کو حذف کیا اور اب یوم اقبال پر چھٹی ختم کرکے اِس دن کی اہمیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فوٹو:فائل


      نومبر آتے ہی کسان اپنے کھیتوں کی جانب رخ کرتے ہیں، گندم کی بوائی کے لئے زمین کی تیاری اور گندم کی کاشت شروع ہوجاتی ہے، درختوں کے پتے خزاں میں گرنا شروع ہوجاتے ہیں، شعرائے کرام ادبی بیٹھکیں سجا لیتے ہیں، رومانوی شاعری تخلیق ہوتی ہے اور ہوا میں خنکی آجاتی ہے، یہی نومبر کا مہینہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ کی پیدائش کا مہینہ بھی ہے، اس ماہ میں ادبی ذوق کے حامل افراد اقبال کی شاعری کے پرچار کے لئے کوششیں کرتے ہیں، درس خودی سے لے کر اُمتِ مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے تذکرے ہوتے ہیں مگر اس سال نومبر کا آغاز کچھ اچھا نہیں ہوا، حکومتِ پاکستان نے یومِ اقبال کی عام تعطیل ختم کرنے کا اعلان کیا اور عذر تلاش کیا کہ تعطیل کی وجہ سے اداروں کی کارکرگی متاثر ہوتی ہے۔
      تعطیل ختم ہونے کا اعلان ہوتے ہی اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں، طرح طرح کے بیانات اور تجزیے ہونے لگے، یومِ اقبال کی چھٹی کیوں نہیں کی گئی؟ اس چھٹی کا علامہ اقبالؒ کی روح کو کیا فائدہ ہونا؟چھٹی ختم کرکے بہت اچھا فیصلہ کیا گیا، وغیرہ وغیرہ مگر اخبارات اور ٹی وی پر موجود تجزیہ نگاروں کو تو خیر اپنا منجن بیچنا ہی تھا، کیوں کہ منجن نہ بکے تو ان کے گھر کا چولہا کہاں سے جلے، مگر سوشل میڈیا پر تو ایک طوفانِ بدتمیزی بپا ہوگیا، سرکار کے اعلان کی حمایت اور مخالفت میں توہین اقبال ؒ کی گئی، کارٹونز بنائے گئے، اشعار کی پیروڈی تخلیق ہوئی۔ الغرض اقبال ؒ اِس قوم کے متنازعہ ترین فرد بن گئے، جی ہاں وہی اقبال جنہوں نے اس قوم کو خودی کا درس دیا، وہی حکیم الامت جنہوں نے منتشر اُمت کو یکجا کرنے کا درس دیا، وہی اقبال کہ جو نوجوانوں سے قوم کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے، جی ہاں مصورِ پاکستان۔
      سوشل میڈیا تو اس بگڑے ہوئے ہاتھی کی طرح بن گیا ہے جو راستے میں آنے والی ہر شے کو پاؤں تلے روندتا ہوا ملیامیٹ کردیتا ہے، مگر اس میں قصور تو ہمارے حاکمین کا ہے جو کہ کرسیِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں اور اس کرسی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، مجھے حیرانی تو تب ہوئی جب حکومت اور چھٹی کے مخالفین کی جانب سے اداروں کی کارکردگی متاثر ہونے کے خدشات کا اظہار کیا گیا اور یہ نقطہ بھی اٹھایا کہ چھٹی کا اقبال کو فائدہ کیا ہے؟ جناب عالی ذرا سرکاری تعطیلات کا کیلنڈر تو اٹھا کر دیکھیں، 5 مئی کو سرکاری چھٹی ہوتی ہے جس میں آپ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں، میں حیران ہوں اس چھٹی کا کشمیری عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اس چھٹی والے دن بھی تو پاکستانی عوام سینما گھروں میں لگی انڈین مووی دیکھتے یا گھر میں کیبل پر چلتے انڈین ڈراموں میں ساس بہو کے جھگڑے ہی تو دیکھتے ہیں۔
      یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر چھٹی کا مزدور کو کیا فائدہ؟ وہی مزدور جس کے لئے آپ دن مناتے ہیں، اپنے ہی دن کے لئے آپ کی تقریبات کے انتظامات میں لگا ہوتا ہے، کبھی صاحب بہادر کے راستے کی صفائی کر رہا ہوتا ہے تو کبھی کرسیوں کی ترتیب درست کررہا ہوتا ہے، ہاں اس دن چھٹی ہونے کی وجہ سے مزدوروں کو کام نہیں ملتا اور مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر مزدور ہی کے بچے بھوکے سورہے ہوتے ہیں۔ یوم پاکستان اور یوم آزادی کی چھٹی بھی تو ہوتی ہے، تو جناب اس چھٹی سے ملک کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ہاں سارا دن آپ آرام سے سوتے ہیں اور رات کو ہلا گلا کرتے ہیں اور اگر اس شور شرابے میں بجلی چلی جائے تو اس دیس کے دن پر بھی اپنے ملک کو گالیاں دینے اور کوسنے سے نہیں جھجکتے، جناب ذرا ایک لمحے کو غور فرمائیں عیدین، میلاد، عاشورہ محرم، کرسمس کی چھٹیاں منانے کا اسلام کو کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ صرف ہماری ذاتی تسکین کے لئے ہی ہم انہیں بھی ضائع کرتے ہیں۔
      میرا خیال تو یہ ہے کہ ان بابرکت دنوں میں چھٹیاں کرنے کی بجائے زیادہ کام کریں تاکہ دن منانے کا مقصد بھی حاصل ہو اور ملک کو فائدہ بھی ہو، مگر آپ سب کا اعتراض تو یوم اقبالؒ کی چھٹی پر ہے کہ بس یہ چھٹی نہیں ہونی چاہئیے۔ اہلِ دانش و اہلِ اقتدار احباب آپ سے اتنی التماس ہے کہ اقبال کو ایک متنازعہ شخصیت نہ بنائیں اور نہ ہی اپنی نظریات کے پرچار کے لئے علامہ اقبال کی روح کو اذیت دیں، مجھے تو اربابِ اختیار کے رویے پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے، پوری دنیا اقبال کے نظریات سے رہنمائی لے رہی اور ہماری سرکار نے پہلے نصاب سے اقبال کی شاعری اور اقبال پر موجود مضامین کو خذف کیا اور اب صرف یوم اقبال نے ہی قوم کو اقبال سے جوڑے رکھا تھا کہ اِس کو بھی نکال پھینکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
      حکومت کی جانب سے چھٹی نہ کرنے کے اعلان کی حمایت اپوزیشن کے سب سے مضبوط کردار عمران خان نے بھی کردی۔ اس حمایت کے بعد علامہ اقبال ؒ کا یوم پیدائش اور اس سے جڑی تمام بات مزید مشکوک ہوگئی۔ پریشان کن بات تو یہ ہے کہ تعطیل ختم کرنے کے اگلے ہی روز وزیراعظم پاکستان ’’سرمایہ کاری کانفرنس‘‘ میں شریک ہوتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ملک کی معاشی ترقی ’’لبرل پاکستان‘‘ میں ہے۔ جناب وزیراعظم، پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نظرئیے کے مطابق ہی وجود میں آیا، اِس بحث کے لئے یہ بلاگ ناکافی ہے، اِس لیے یہ بحث پھر سہی، جناب وزیراعظم! میں یہاں اقبال ؒ ہی کا معاشی نظریہ پیش کروں گا جس سے شاید آپ کو مصور پاکستان کی جانب سے پاکستان کی بنائی جانے والی تصویر کی سمجھ آجائے۔
      اقبال نے اپنی شاعری اور فلسفیانہ تحریروں میں عمر بھر نہ صرف معاشی ظلم کے خلاف احتجاج کیا ہے بلکہ اس ظلم کو مٹا کر معاشی انصاف کے ایک نئے نظام کے قیام کی بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔
      جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
      اْس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو
      ایک اور مختصر نظم بعنوان ’’گدائی‘‘ میں اْنھوں نے سرمایہ و محنت کے اسرار و رموز کو یوں منکشف کیا ہے،
      مے کدے میں ایک دن اک رندِ زیرک نے کہا
      ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
      تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے؟
      کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے زرّیں قبا؟
      اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
      تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
      اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
      دینے والا کون ہے؟ مردِ غریب و بے نوا
      مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
      کوئی مانے یا نہ مانے، میر و سلطاں سب گدا!
      اپنے وطن کی معاشی پسماندگی اور اُس سے پیدا ہونے والے اخلاقی اور روحانی امراض کا جیسا جیتا جاگتا احساس علامہ اقبال کے ہاں پایا جاتا ہے اس کی مثال ان کے عہد میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، اپنی پہلی کتاب بعنوان ’’علم الاقتصاد‘‘ کے دیباچہ میں اقبال لکھتے ہیں،
      ’’غریبی قویٰ انسانی پر بہت بُرا اثر ڈالتی ہے، بلکہ بسا اوقات انسانی رُوح کے مجلّا آئینہ کو اس قدر زنگ آلود کردیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود و عدم برابر ہوجاتا ہے۔ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دُکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجائیں اور ایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا دردناک نظارہ ہمیشہ کے لئے صفحہ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے‘‘۔
      آج ہمارے اقتصادی منصوبہ سازوں کو ایک نظر علامہ اقبال کی اس پہلی کتاب پر بھی ڈال لینی چاہئے۔ اقبال نے اپنی شاعری اور اپنی فلسفیانہ تحریروں میں عمر بھر نہ صرف معاشی ظلم کے خلاف احتجاج کیا ہے بلکہ اُس ظلم کو مٹا کر معاشی انصاف کے ایک نئے نظام کے قیام کی بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم اقبال کے تصورات کو پاکستان میں ایک عادلانہ معاشی نظام کے نفاذ کی بنیاد بنائیں۔ جب تک پاکستان میں معاشی انصاف کے اسلامی تصورات عملی طور پر نافذ نہیں کر دئیے جاتے تب تک ہمارے ہاں جمہوریت کا نظام بھی اقبال کے لفظوں میں صرف ’’جمہوری تماشہ‘‘ ہی بنا رہے گا۔





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    5. #14
      ...."I don't need your attitude. I've my own"..... www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Arosa Hya's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Peace
      Posts
      5,286
      Threads
      972
      Thanks
      965
      Thanked 827 Times in 507 Posts
      Mentioned
      518 Post(s)
      Tagged
      6978 Thread(s)
      Rep Power
      244

      Re: علامہ محمد اقبال

      hmmmmmmmmmmmmmmmmmm


    6. #15
      The thing women have yet to learn is nobody gives you power. You just take it. Admin CaLmInG MeLoDy's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,203
      Threads
      2235
      Thanks
      931
      Thanked 1,366 Times in 867 Posts
      Mentioned
      1038 Post(s)
      Tagged
      7965 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال

      Quote Originally Posted by Arosa Hya View Post
      hmmmmmmmmmmmmmmmmmm
      Arosa last two sections ke winner ap ne annouce nahi kiye. section of the week..fata fat annouce karain.main ne aj love and friendship laga dia hai section main.






    7. #16
      ...."I don't need your attitude. I've my own"..... www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Arosa Hya's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Peace
      Posts
      5,286
      Threads
      972
      Thanks
      965
      Thanked 827 Times in 507 Posts
      Mentioned
      518 Post(s)
      Tagged
      6978 Thread(s)
      Rep Power
      244

      Re: علامہ محمد اقبال

      Quote Originally Posted by CaLmInG MeLoDy View Post
      Arosa last two sections ke winner ap ne annouce nahi kiye. section of the week..fata fat annouce karain.main ne aj love and friendship laga dia hai section main.
      g mjy smj nhi aa raha tha kuch din open na hony ki wja se
      lil. favor kr den...... weekly section ki jo post lagayi wo link de dain mjy ek to eng section tha second konsa?


    Closed Thread
    + Post New Thread
    Page 2 of 2 FirstFirst 12

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    جون ایلیا،میر تقی،علامہ اقبال،فیض احمد،سید نصیر،مرزا غالب،محسن نقوی، ‏etc

    علامہ اقبال کے مشہور اشعار تصویر

    جون ایلیا،میر تقی،علامہ اقبال،فیض احمد،سید نصیر،مرزا غالب،محسن نقوی، ‏e

    نہ کر تقدیر ۔۔اقبال شعر

    ﻣﮯ ﮐﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﮎ ﺭﻧﺪِ ﺯﯾﺮﮎ ﻧﮯ

    علامہ اقبال

    کلام اقبال اردو

    دائم اقبال دائم شاعری

    مومن خا مومن یا جگر مراد آباری کی غزل گوی مضمون لیکهی

    علامہ اقبال یونیوسٹی کی داخلا کی آخری تارخیح

    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •