شہر کے دیوار و در کو رنگ پہنانے لگیں پھر کف آلودہ زبانیں مدح و ذَم کی قمچیاں میرے ذہن و گوش کے زخموں پہ برسانے لگیں پھر نکل آئے ہوَسناکوں کے رقصاں طائفے درد مندِ عشق پر ٹھٹھّے لگانے کے لیے پھر دُہل کرنے لگے تشہیرِ اخلاص و وفا کشتۂ صدق و صفا کا دل جلانے کے لیے ہم کہ ہیں کب سے درِ اُمّید کے دریوزہ گر یہ گھڑی گُزری تو پھر دستِ طلب پھیلائیں گے کوچہ و بازار سے پھر چُن کے ریزہ ریزہ خواب ہم یونہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں گے
Bookmarks