میرے ہاتھوں کو، جدا باندھتے ہیں آہ کا، کس نے ، اثر دیکھا ہے ؟ ہم بھی ایک اپنی ہوا باندھتے ہیں قیدِ ہستی سے رہائی، معلوم! اشک کو بے سرو پا باندھتے ہیں نشۂ رنگ سے ہے ، واشدِ گل مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں تیری فرصت کے مقابل، اے عمر! برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں غلطی ہائے مضامیں ، مت پوچھ! لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں کس کا دل زلف سے بھاگا ؟ کہ اسدؔ! دستِ شانہ بہ قفا باندھتے ہیں
Bookmarks