کیا میں نے اس خاک داں سے کنارا جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ نہ باد بہاری ، نہ گلچیں ، نہ بلبل نہ بیماری نغمۂ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربت غازیانہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ پورب ، یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
Bookmarks