(گذشتہ سے پیوستہ) غیبی مدد اب تک ہمارے تمام پل صحیح سالم تھے کیونکہ جی او سی کی اجازت کے بغیر پل تباہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میری دو اگلی کمپنیوں نے نہر کے دونوں کناروں پر پوزیشن لے رکھی تھی۔ ابھی تک انھیں مورچے کھودنے کی مہلت نہیں ملی تھی۔ اس لیے وہ قدرتی آڑیا اوٹ سے مدد لے رہے تھے۔ اگلی دفاعی لائن مستحکم کرنے کے لیے میں نے پیچھے کی دو کمپنیوں کو حکم دیا کہ وہ آگے بڑھ کر خالی جگہوں پر قبضہ کر لیں۔ میری بٹالین پورے پانچ میل کے محاذ پر صف آرا تھی۔ پلوں کی حفاظت کے لیے دو ٹینک شکن گنیں لگا دی گئیں۔ عین اس نازک لمحے پر جب ہم گنوں کے لیے آڑ ڈھونڈ رہے تھے، ایک بوڑھا آدمی چارے سے بھری بیل گاڑی پل کے پار لے آیا۔ میں نے اس سے کہا ’’بابا گاڑی یہیں رہنے دو اور اپنے بیل کھول کر لے جائو۔‘‘ اس نے میری بات مان لی۔ یہ ایک غیبی مدد تھی۔ ہم نے ایک گن بیل گاڑی کی اوٹ میں چھپا دی اور دوسری ایک زیر تعمیر مسجد کے پچھلے حصے میں۔ ہم اس بھاگ دوڑ میں مصروف تھے۔ اتنے میں بریگیڈ کمانڈر، بریگیڈیئر آفتاب، انجینئر کمانڈر کرنل سلیمان اور آرٹلری کمانڈر کرنل امداد حسین موقع پر پہنچ گئے۔ دشمن کے ٹینکوں کی تباہی دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا اور ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔مہاجرین دشمن ٹینک کے آگے آگے بھاگ رہے تھے۔ اس طرح ہماری گولہ باری میں رکاوٹ پڑی۔ ہم ممکنہ حد تک لوگوں کو فائر سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے جب کہ دشمن اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ دشمن کا پہلا ٹینک جونہی پل کے نزدیک پہنچا، بیل گاڑی کی اوٹ میں چھپی گن نے ایک گولہ فائر کیا جو نشانے پر لگا۔ چند ثانئے بعد دشمن کے ٹینک سے شعلے اٹھتے نظر آئے۔ان کے دوسرے ٹینک نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور ہماری گن پوزیشن پر فائر کیا۔ گولہ لگنے سے جہاں بیل گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوئی وہاں معجزانہ طور پر گن صاف بچ گئی۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ہماری گن سے دوسرا گولہ داغا گیا، جس نے دوسرا ٹینک بھی تباہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی پیش قدمی کرتے دشمن پر خود کار ہتھیار سے فائر کھول دیا گیا۔ توپ خانہ بھی آگ اگلنے لگا۔ دشمن کے بڑھتے قدم عارضی طور پر رک گئے۔بریگیڈ کمانڈر نے صورت حال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ جی او سی کی طرف سے تمھیں پل تباہ کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ ابھی تک دونوں طرف سے وقفے وقفے سے فائرنگ جاری تھی۔ انجینئر پارٹی نے پل اڑانے کی کوشش کی، لیکن اسے جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ بڑا حصہ دونوں کناروں سمیت محفوظ رہا۔ تاہم اس پر سے گاڑیاں نہیں، صرف پیدل دستے گزر سکتے تھے۔ صورت حال بڑی نازک ہو گئی۔ میں نے اپنی درمیانی دو کمپنیوں کی نہر کے ساتھ صف بندی کرا دی تاکہ پلوں کی حفاظت کر سکیں۔ اب میرے پاس ریزرو میں کوئی دستہ نہیں تھا۔ دشمن نہر پار کرنے کے لیے کسی جگہ پر قبضہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔اس مرحلے پر میں نے اپنے بریگیڈ کمانڈر سے کہا ’’مناسب ہو گا کہ آپ یہاں سے پیچھے جا کر دوسری دفاعی لائن بنا لیں۔ ممکن ہے دشمن ہماری پوزیشن روندتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ وہ ہماری دفاعی پوزیشن کی کمزوریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔‘‘ بریگیڈیئر صاحب سیدھے لاہور سے آئے تھے۔ یہ بات ان کے علم میں تھی کہ پیچھے کا سارا علاقہ نیز بی آر بی نہر اور راوی کے پل تک کا درمیانی علاقہ مکمل طور پر خالی ہے۔ خدانخواستہ دشمن ہماری پوزیشنوں کو روند کر نکل جاتا تو لاہور تک کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا۔ وہ ٹینکوں پر سوار ہو کرجی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے باآسانی شالامار باغ پہنچ جاتے۔وہاں سے محمود بوٹی بندکی راہ اختیار کر کے گیارہ بجے سے پہلے راوی برج تک کے علاقے پر قبضہ کرتے تو چھائونی میںموجود دستوں کو ان کے سامنے ہتھیار ڈالے بغیر چارہ نہ رہتا۔ یقینا یہ ایک قرین قیاس راہ عمل تھی، جسے اختیار میں وہ پوری طرح آزاد تھے۔ 6ستمبر کی نشانی بریگیڈ کمانڈر رخصت ہونے لگے ،تو میں نے ایک خالی کارتوس ۶ستمبر کی نشانی کے طور پر انھیں پیش کیا۔ میں نے ایسے دو کارتوس اس وقت اٹھائے جب صبح ہم دشمن کے فضائی حملے کی زد میں آئے تھے۔ دوسرا کارتوس میں نے اپنے پاس رکھ لیا۔ وطن کے جاں نثار سپاہیوں کے لیے ایسی نشانیاں کسی نئے تعمیر شدہ پل کی رسم افتتاح ادا کرنے یا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اربوں روپے کے صنعتی منصوبے کا ’’سنگ بنیاد‘‘ رکھنے کی یادگاری تختی سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ باٹاپور برج کے جزوی انہدام اور دو بھارتی ٹینکوں کی تباہی کے بعد دشمن کی پیش قدمی مدہم پڑ گئی، تاہم ان کے پیدل فوجی موضع ڈوگرائی کے آباد علاقے کی اوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے اور ان کی خاصی تعداد پل کے قریب جمع ہو گئی۔ یوں میرے ان جوانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں جو پل کی حفاظت پر مامور تھے۔ نیز پل دشمن کے قبضہ میں چلے جانے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا۔ میں نے فوراً توپ خانے کو حکم دیا کہ پل کے اوپر ’’ایس او ایس‘‘ فائر گرایا جائے۔ جنگی طیاروں کی آمد یہ ایک مشکل فیصلہ تھا تاہم کمانڈر کو ضرورت پڑنے پر کسی سے مشورہ کیے بغیر ایسا کرنا پڑتا ہے۔ ہم ابھی تک کھلے میدان میں تھے۔ دشمن کے ناگہانی حملہ نے ہمیں مورچے کھودنے کی مہلت بھی نہ دی۔ میرے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ اپنے کچھ جوانوں کی جانوں کے ضیاع کا خطرہ قبول کرتے ہوئے توپ خانہ سے بمباری کرائوں۔ دشمن ہم پر بھرپور وار کرنے کے لیے قریب ہی جمع ہو رہا تھا۔ ہمیں ہر قیمت پر انھیں روکنا تھا۔ فائر کا حکم دینے کے بعد انٹیلی جنس افسر خالد نواز اور وائرلیس آپریٹر کے ساتھ میں بھی ایک گڑھے میں چھپ گیا۔ چند ثانیے بعد ہماری توپیں آگ اگلنے لگیں۔ زیادہ تر گولے پل پر گرے اور بالکل صحیح نشانے پر لگے۔ بھارتی سپاہی کسی اوٹ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگے۔ عین اس وقت جب ہم موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے، ہمارے دو لڑاکا طیارے فضا میں نمودار ہوئے۔ انھوں نے زمین پر گھمسان کارن پڑتے دیکھا تو فوراً واپس پلٹے۔ دشمن کا ہر اول دستہ جس میں ٹینک، توپیں اور جنگی سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں شامل تھیں، اپنی سرحدوں کی جانب بڑھتے دیکھ کر انھوں نے غوطہ لگایا اور زبردست فائرنگ کر کے بھارتیوں کا اسی طرح کچومر نکال دیا جیسے ابابیلوں نے ابرہہ کے ہاتھیوں کا قیمہ بنا دیا تھا۔ دشمن کو پیش قدمی بھول گئی بلکہ الٹا اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ ہمارے شاہینوں نے اتنی پھرتی سے بم باری کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ میں نے کھڑے ہو کر وہ یادگار اور دلچسپ منظر دیکھا۔ حالانکہ اس لمحے میری اپنی پوزیشن فائر کی زد میں تھی۔ ان طیاروں کی اچانک آمد ہمارے لیے غیبی مدد ثابت ہوئی۔ جنگوں میں اکثر نازک لمحات آتے ہیں۔ میرے خیال میں ۱۹۶۵ء کی جنگ کا سب سے نازک لمحہ وہی تھا، جب وہ طیارے فضا میں نمودار ہوئے۔ جنگ بندی کے چند ماہ بعد ان دو لڑاکا طیاروں میں سے ایک طیارہ کا پائلٹ، جس نے ۶ستمبر کی صبح کو لڑائی میں حصہ لیا اور دشمن کا بھرکس نکال دیا، باٹا پور میں واقعی ہماری پوزیشن کے دورے پر آیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’آیا اس روز انھیں خاص طور پر کسی جنگی مشن پر بھیجا گیا تھا یا وہ اتفاقاً ادھر آ نکلے تھے؟‘‘۔ اس نے بتایا ’’ہم معمول کے جاسوسی مشن پر تھے۔ جونہی ہم نے ٹینکوں اور گاڑیوں پر سوار دشمن سپاہیوں کو اپنی سرحدوں کی طرف بڑھتے دیکھا، تو اسے ایک اچھا ہدف سمجھا اور آناً فاناً سارا اسلحہ فائر کر دیا۔‘‘ ایوب خان کا قوم سے خطاب دشمن نے لاہور پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے منصوبے کی بنیاد ’’حیرت‘‘ اور ’’برق رفتاری‘‘ پر رکھی تھی۔ جنرل چودھری نے حیدرآباد دکن اور گوا پر حملہ کرتے وقت بھی اسی تدبیر پر عمل کیا تھا۔ (جاری ہے
Nice Sharing
Thanks For Sharing
Bookmarks