Quote Originally Posted by intelligent086 View Post


اور ہے اپنی کہانی اور ہے
داستاں اس کو سنانی اور ہے

میں تو سویا تھا ستارے اوڑھ کر
یہ ردائے آسمانی اور ہے


ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اس سمندر کا تو پانی اور ہے

پھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اس کی اک عادت پرانی اور ہے

اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے
اس کے گھر کی اک نشانی اور ہے

یوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں

جیسے اک عہدِ جوانی اور ہے

پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے


umda intekhab
thanks