Originally Posted by intelligent086 کیسے ہنگامۂ فرصت میں ملے ہیں تجھ سے ہم بھرے شہر کی خلوت میں ملے ہیں تجھ سے سائے سے سایا گزرتا ہوا محسوس ہوا اک عجب خواب کی حیرت میں ملے ہیں تجھ سے اتنا شفّاف نہیں ہے ابھی عکسِ دل و جاں آئینے گردِ مسافت میں ملے ہیں تجھ سے اس قدر تنگ نہیں وسعتِ صحرائے جہاں ہم تو اک اور ہی وحشت میں ملے ہیں تجھ سے جُز غمِ عشق کوئی کام نہیں ہے سو اے عشق جب ملے اک نئی حالت میں ملے ہیں تجھ سے وقت کا سیلِ رواں روک ہی لیں گے شاید وہ جو پھر ملنے کی حسرت میں ملے ہیں تجھ سے اتنا خوش فہم نہ ہو اپنی پذیرائی پر ہم کسی اور محبت میں ملے ہیں تجھ سے یاد کا زخم بھی ہم تجھ کو نہیں دے سکتے دیکھ کس عالمِ غربت میں ملے ہیں تجھ سے اب اگر لوٹ کے آئے تو ذرا ٹھہریں گے ہم مُسافر ہے، سو عُجلت میں ملے ہیں تجھ سے ٭٭٭ Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks