Originally Posted by intelligent086 خواب میں بھی نہ کسی شب وہ ستم گر آیا وعدہ ایسا کوئی جانے کہ مقرر آیا مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کی توبہ لے لیا دوڑ کے جب سامنے ساغر آیا غیر کے روپ میں بھیجا ہے جلانے کو مرے نامہ بر ان کا نیا بھیس بدل کر آیا سخت جانی سے مری جان بچے گی کب تک ایک جب کُند ہوا دوسرا خنجر آیا داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا لے لیا عشق میں جو ہم کو میسر آیا عشق تاثیر ہی کرتا ہے کہ اس کافر نے جب مرا حال سنا سنتے ہی جی بھر آیا اس قدر شاد ہوں گویا کہ ملی ہفت اقلیم آئینہ ہاتھ میں آیا کہ سکندر آیا وصل میں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا اے فلک دیکھ تو یہ کون مرے گھر آیا راہ میں وعدہ کریں جاؤں میں گھر پر تو کہیں کون ہے، کس نے بلایا اسے، کیونکر آیا داغ کے نام سے نفرت ہے، وہ جل جاتے ہیں ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آیا ٭٭٭ Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks