خط و رخ اس سیمبر کا سیہ ایسا سفید ایسا
ورق کب ماہ انور کا سیہ ایسا سفید ایسا
ڈزلف اور مانگ ہے اس کی کہ کوئی سانپ عالم میں
نہیں اس کے برابر کا سیہ ایسا سفید ایسا
مرے مژگان اشک آلودہ کو دیکھو کہ برسے ہے
یہ بادل دیدہ تر کا سیہ ایسا سفید ایسا
مسی زیب اس کے دنداں دیکھ حیراں ہوں کہ ہے کیونکر
یہ رنگ اس سلک گوہر کا سیہ ایسا سفید ایسا
نہ دیکھوں نرگس شہلا کا گل کیونکر کہ ہے نقشہ
بعینہ چشم دلبر کا سیہ ایسا سفید ایسا
خجالت کش سواد شام و نور صبح ہیں دونوں
دوشالہ ہے ترے سر کا سیہ ایسا سفید ایسا
سرشک سرمہ آلود اپنا دکھلا کر وہ کہتے ہیں
کہ ہے رنگ میں اس کبوتر کا سیہ ایسا سفید ایسا
نہ ہوویں سوسن و نسریں خجل کیونکر کہ ہے زیبا
لباس اس ماہ پیکر کا سیہ ایسا سفید ایسا
ظفر ہیں نیلم و الماس پتھر ایک صانع نے
کیا ہے رنگ پتھر کا سیہ ایسا سفید ایسا
Similar Threads:
Bookmarks