یارو نگہ یار کو ، یاروں سے گلہ ہے
خونیں جگروں ، سینہ فگاروں سے گلہ ہے
جاں سے بھی گئے ، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی
جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گلہ ہے
اب وصل ہو یا ہجر ، نہ اب تک بسر آیا
اک لمحہ ، جسے لمحہ شماروں سے گلہ ہے
اڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی
صحراؤں پر شور دیاروں سے گلہ ہے
بیکار کی اک کارگزاری کے حسابوں
بیکار ہوں اور کار گزاروں سے گلہ ہے
بے فصل اشاروں سے ہوا خونِ جنوں کا
ان شوخ نگاہوں کے اشاروں سے گلہ ہے
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote




Bookmarks