سِنکیانگ



اب کوئی طبل بجے گا، نہ کوئی شاہسوار

صبح دم موت کی وادی کو روانہ ہو گا!
اب کوئی جنگ نہ ہو گی نہ کبھی رات ہو گی
خون کی آگ کو اشکوں سے بُجھانا ہو گا
کوئی دل دھڑکے گا شب بھر نہ کسی آنگن میں
وہم منحوس پرندے کی طرح آئے گا
سہم، خونخوار درندے کی طرح آئے گا
اب کوئی جنگ نہ ہو گی مے و ساغر لاؤ
خوں لُٹانا نہ کبھی اشک بہانا ہو گا
ساقیا! رقص کوئی رقصِ صبا کی صورت
مطربا! کوئی غزل رنگِ حِنا کی صورت

بساطِ رقص پہ صد شرق و غرب سے سرِ شام
دمک رہا ہے تری دوستی کا ماہِ تمام
چھلک رہی ہے ترے حُسنِ مہرباں کی شراب
بھرا ہوا ہے لبالب ہر اِک نگاہ کا جام
گلے میں تنگ ترے حرفِ لطف کی راہیں
پسِ خیال کہیں ساعتِ سفر کا پیام
ابھی سے یاد میں ڈھلنے لگی ہے صُحبتِ شب
ہر ایک روئے حسیں ہو چلا ہے بیش حسیں
ملے جو کچھ ایسے، جُدا یوں ہوئے کہ فیض اب کے
جو دل پہ نقش بنے گا وہ گُل ہے، داغ نہیں
ہانگ چاؤ (چین)



Similar Threads: