ہنس پڑیں گے اچانک کسی روز ہم ، ہم کسی دن اچانک بہل جائیں گے
دل کی حالت یکایک سنبھل جائے گی ، غم کے منظر خوشی میں بدل جائیں گے
ہجر کی بے سکونی کے ایام میں دل کی وحشت پہ کوئی بھروسہ نہیں
موجِ ِ آوارگی جوش میں آئے گی اور کسی روز گھر سے نکل جائیں گے
اچھا خاصا ہے پہلے بھی یہ تجربہ ، دیکھ رکھا ہے فرقت کا ہر مرحلہ
چار غزلیں لکھیں گے تری یاد میں ، چار نظمیں لکھیں گے سنبھل جائیں گے
ان کی مصروفیت کا بہانہ بجا ، گھر میں مہمانوں کا آنا جانا بجا
ہم بھی مصروف ہو جائیں گے ایک دن ، ہم بھی سر سے کسی روز ٹل جائیں گے
راہ چلتے ہوئے اک جھلک دیکھ لی ، جسم و جاں میں اترنے لگی تازگی
آج پھر دل کا میلان جوبن پہ ہے لے کے محفل میں تازہ غزل جائیں گے
اس کے مفروضے سب تھے جمادات پر اس نے انسان کے دل کو دیکھا نہ تھا
وہ جو کہتا تھا سب موم ہوجائے گا ،وہ جو کہتا تھا پتھر پگھل جائیں گے
روح تھے جان تھے دل کا ارمان تھے ،ہم کوئی دن کی چاہت کا سامان تھے
کیا خبر تھی کہ بیٹھے بٹھائے کبھی ان کے سارے ارادے بدل جائیں گے
کرب ِ تخلیق جھیلا نہیں جائے گا ، جب بھی لفظوں سے کھیلا نہیں جائے گا
یوں کریں گے کہ کاغذ قلم چھوڑ کر ، محفل ِ اہل ِ دل سے نکل جائیں گے
کون سنتا ہے قصے پرانے میاں ،کون سنتا ہے غم کے فسانے میں
اس قدر مت کہانی سنا ،لوگ سننے سے پہلے ہی ٹل جائیں گے
Bookmarks