سال بھی آخر بیت گیا
،کچھ ٹیسیں، یادیں خواب لیے
چند کلیاں، چند گلاب لیے
،کچھ انکھڑیاں پرآب لیے
کچھ اجلے دن کچھ کالی راتیں...
،کچھ سچے دکھ، جھوٹی باتیں
کچھ تپتی رتیں، کچھ برساتیں
،کسی یار عزیز کا دکھ پیارا
کسی چھت پہ امیدوں کا تارا
،جس پہ ہنستا تھا جگ سارا
اس شاعر نے جو حرف لکھے
،اس میں تیری یاد کے ساۓ تھے
وہ لوگ بھی آخر لوٹ گئے
،جو صدیوں پار سے آۓ تھے
ان ہنستے بستے لوگوں نے
،میرے سارے دکھ اپناۓ تھے
پھر میں نے یاد کی مٹی می
زخمی لمحے دفناۓ تھے
Bookmarks