جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے صحیح طور سے کسی کو الوداع کہنا نہیں آتا کیونکہ یہ مجھے دنیا میں سب سے مشکل کام نظر آتا ہے۔ شاید آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو۔ کوئی شخص اگر کسی قریب کی جگہ جا رہا ہو تو اسے خدا حافظ کہنا آسان ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اس وقت بنے گا جب کوئی دوست بہت دور اور بہت لمبے عرصے کے لیے جا رہا ہو اور اگر یہ دوست ہمارا لنگوٹیا یار ہو تو الوداع کہنے میں ہم زیادہ نا کام ہوتے ہیں اس لیے کہ ہم اپنے اصل جذبات کو پوری شدت کے ساتھ آشکار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جب ہم کسی دوست کو گھر کی دہلیزیا انپے کمرے ہی سے الوداع کہتے ہیں تو یہ کام آسان ہوتا ہے۔ نہ ہم جذباتی ہوتے ہیں اور نہ وہ جذباتی ہوتاہے۔ ہمارے الفاظ بھی ہمارا ساتھ دیتے ہیں اور کسی بدمزگی کا بھی امکان نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک یہ آئیڈیل الوداع ہوتی ہے ۔لیکن اگر وہ ہم سے یہ درخواست کرے کہ ہم اسٹیشن پر آنے کی زحمت نہ کریں اور ہم اس کے الفاظ کو نظر انداز کر دیں اور اسٹیشن پہنچ کر ہی دم لیں تو سمجھ لیجئے کہ یہیں سے گڑ بڑ شروع ہو گئی اس لیے کہ ہم اپنے دوست سے جی بھر کر باتیں کر ہی چکے ہیں لیکن اپنی محبت میں اسٹیشن پر بھی وارد ہو چکے ہیں اور کبھی تو ہم دونوں کچھ باتیں کر لیتے ہیں اور کبھی بڑی دیر تک محض ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں جیسے کہ گونگے ہوں! اور اس دوران ہم بے چینی سے اِدھر اُدھر بھی دیکھتے رہتے ہیں کہ خدایا سگنل کیوں نہیں ڈائون ہوتا اور گارڈ وسل کیوں نہیں بجاتا؟ ابھی پچھلے ہفتے ہی میں ہمیں یوسٹن ایک دوست کو الوداع کہنے کی غرض سے پہنچنا پڑا۔ موصوف کو ایک دن قبل ہم ڈنر پر مدعو کر چکے تھے اس ڈنر میں جہاں رنگینی تھی وہیں ان سے جدا ہونے کا غم بھی شامل تھا۔ یہ صاحب امریکہ جا رہے تھے۔ہمیں علم تھا کہ وہ لمبے عرصے بعد واپس آئیں گے اور ہم ان پر یہ باور کرا چکے تھے کہ ان کی جدائی سے جو خلا پیدا ہو گا وہ آسانی سے پُر ہونا مشکل ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم انہیں ایک شاندار الوداع دے چکے تھے مگر صاحبو! اس امر کا کیا کیا جائے کہ ہمیں ان کو چھوڑنے اسٹیشن پر بھی جانا پڑا جہاں کہ ہمارے ذہن سے الوداع کے موقع پر ادا کرنے والے الفاظ ختم ہو چکے تھے۔ ہمارے ساتھ اب یہ مصیبت تھی کہ ان سے مزید کیا باتیں کی جائیں؟ بہر صورت ہم نے ان سے پوچھا۔ آپ نے سب سامان رکھ لیا نا؟ جی ہاں۔ انہوں نے ایسے جواب دیا جیسے خالی الذہن ہوں۔ دوپہر کا کھانا تو آپ ٹرین ہی پر کھائیں گے؟ہم نے رٹا رٹا یا سوال کیا۔ جی بالکل! چند لمحوں تک ہم ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ پھر میں نے پوچھا یہ ٹرین کریوے پر تو رُکے گی؟ جی نہیں ہمارے دوست نے زبردستی کی مُسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ پھر ایک وقفہ ہوا۔ ہم دونوں میں سے کوئی کھانسنے لگا۔ یہ بھی کچھ نہ بولنے کا بہانہ تھا۔ اور ہم دل میں جز بز ہو رہے تھے کہ یہ کم بخت ٹرین آخر کھسکتی کیوں نہیں؟ تا کہ ہم دونوں کو اس خواہ مخواہ کی الوداعی کا روائی سے نجات ملے۔ ٭٭٭
Bookmarks