ایٹمی ڈیٹرنس کی پالیسی
ایڈیٹوریل

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت بدھ کو اسلام آباد میں نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزراء چوہدری نثار، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، اسحاق ڈار، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔اجلاس میں قومی سلامتی اور دفاع سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ایس پی ڈی کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل مظہر جمیل نے جوہری اثاثوں اور میزائل ٹیکنالوجی پر بریفنگ دی۔ اجلاس کے دوران ملک کی داخلی سلامتی کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا اور دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب میں مسلح افواج کی کامیابیوں کو سراہا گیا۔ اجلاس کے شرکاء نے جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول پروگرام اور اسٹرٹیجک اثاثوں کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی انتظامات پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کے بارے میں دھمکی آمیز رویے سامنے آنے پر پاکستان میں تشویش کا ابھرنا اور اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوری اور بھرپور اقدامات کرنا ایک قدرتی امر ہے۔ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر وقفے وقفے سے فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بلاجواز نہیں۔ بھارتی آرمی چیف دلبیر سنگھ نے گزشتہ دنوں نئی دہلی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی دے تھی کہ مختصر وارننگ پر مستقبل میں پاکستان کے ساتھ مختصر جنگ ہو سکتی ہے اس لیے بھارتی فوج اس کے لیے تیار رہے۔
اس کشیدہ صورت حال کے تناظر میں پاکستان میں سیاسی و عسکری سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا اور بھارت پر یہ واضح کر دیا گیا کہ اگر اس نے جنگ مسلط کی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھارت پر کھل کر واضح کر دیا اگر اس نے کولڈ اسٹارٹ یا ہاٹ اسٹارٹ جنگ کا آغاز کیا تو اس سے نمٹنے کی پاک فوج بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ کچھ عرصے سے ایسی رپورٹس بھی منظر عام پر آ رہی ہیں کہ بھارت روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگانے کے علاوہ اپنے میزائلی اور ایٹمی پروگرام کو بڑی تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے۔
آخر اتنے خوفناک ہتھیاروں کی تیاری کیوں کی جا رہی ہے اور انھیں کس کے خلاف استعمال کیا جائے گا، بھارت کے ہمسایہ ممالک خاص طور پر پاکستان اور چین اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بعض ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے پاس روایتی اسلحہ کے انبار کے باعث خطے میں عدم توازن پیدا ہو چکا ہے، یہ عدم توازن اور طاقت کا گھمنڈ بھارت کو پاکستان کے خلاف ایک نئی جنگ پر اکسا رہا ہے۔ بھارتی جنگی ماہرین نے پاکستان کے خلاف کولڈ اسٹارٹ کا نظریہ پیش کیا جس کے تحت بہت سارے محاذوں پر عسکری کارروائیوں کا بیک وقت آغاز کرکے پاک فوج کو تقسیم کر دیا جائے اس طرح پاکستان روایتی جنگ میں الجھ کر ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کر سکے گا۔ اس صورت حال کے تناظر میں نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے اجلاس میں روایتی فوجی عدم توازن کا نوٹس لیا گیا اور اس قومی عزم کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان اس عدم توازن کے جواب میں اپنی ایٹمی پالیسی پر عمل جاری رکھے گا جس میں زیادہ موثر چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری شامل ہے۔
پاکستان نے اس نئی پالیسی کو “Full- spectrum deterrence capability” کا نام دیا ہے، جس کا مقصد بھارت کی ایٹمی پالیسی کے جواب میں قابل اعتماد مگر کم سے کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھنا ہے۔ پاکستان نے یہ ایٹمی پالیسی چند برس قبل اختیار کی تھی جب بھارت نے امریکا اور روس سمیت دیگر ممالک سے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور فوجی سازو سامان خریدنے کے معاہدے کیے تھے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ ہتھیاروں کی دوڑ سے اجتناب کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے ہر طرح کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے کم سے کم قابل اعتماد ڈیٹرنس کے اصول پر کاربند رہا اور بھرپور ڈیٹرنس کی صلاحیت حاصل کرکے اسے برقرار رکھا جائے گا۔ بھارت کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے اور خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی خواہش کے پیش نظر پاکستان زیادہ سے زیادہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر مجبور ہو چکا ہے تاکہ وہ اپنی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹ سکے۔
دوسری جانب تجزیہ نگار جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کے عمل کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ رہے ان کا کہنا ہے کہ اربوں ڈالر ان ہتھیاروں کی تیاری پر لگانے کے بجائے خطے کے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے، صورت حال یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں کروڑوں عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جن کے پاس تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں تو ایک طرف پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ بھارت کے جنگی جنون کو بڑھاوا دینے میں عالمی طاقتوں کا بھی درپردہ ہاتھ ہے جو اپنا اسلحہ بیچنے اور تجارتی مفادات کے لیے اس خطے میں کشیدگی اور تناؤ برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اس لیے پاکستان اور بھارت دونوں کو اپنے وسائل ہتھیاروں کی تیاری کی نذر کرنے کے بجائے خطے کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
Similar Threads:
Bookmarks