Quote Originally Posted by illusionist View Post
ماں کے نام



موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں

تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں



فکر میں بچوں کی کچھ اسطرح گھل جاتی ہے ماں



نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں



اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن



چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں



روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے



چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں



اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح



اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں



گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر



ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آجاتی ہے ماں



دے کے بچوں کو ضمانت میں رضائے پاک کی



پیچھے پیچھے سر جھکائے دور تک جاتی ہے ماں



لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم



ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں



وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر



اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں



پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے



کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں



سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو



ذندگی بھر کا صلہ اک فاتحہ پاتی ہے ماں





//////...........

Really "Maa" jaisa tohfa koi nahi .........................
1000000000000000000.................... % True