سید ظفر ہاشمی
عاشورہ ِ محر م تو بخیر و عافیت رخصت ہو گیا ۔لیکن اس سے دو روز قبل جو سانحہ لاہور میں واہگہ بارڈرپر ہو اوہ بھی کسی طور قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹنے اور اپنے وطن سے محبت کا اظہارلیے وہاں آنیوالے60سے زائدمعصوم اور بے گناہ شہری درندہ صفت لوگوں کے نا پاک عزائم کا نشانہ بن گئے ،جو باقی بچے وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کیسے گزاریں گے اس کا تصور کرنا ہی محال ہے ۔ اس واقعے میں کئی گھرانے ایسے تھے جو اس درندگی کے باعث بالکل ہی اجڑ کر رہ گئے ۔ایک ہی گھر سے کئی کئی جنازوں کا اٹھنا خوف خدا رکھنے والا کوئی بھی انسان کسی طور برادشت نہیں کر سکتا ۔ جن کے سروں پر 61انسانوں کا خون ہو کیاوہ انسان کہلانے کے لائق ہو سکتے ہیں ۔یہ بحث تو ایک طرف لیکن اس واقعے سے یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا واقعی آپریشن ضرب عضب نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپریشن کے بعد سے دہشتگردی کے واقعات میں کمی ضرور آئی ہے لیکن اس واقعے کے بعدکمر ٹو ٹنے والی بات حقیقت پر مبنی دکھائی نہیں دیتی بلکہ انہوں نے تو کراراجواب دے کر یہ ثابت کیا کہ انکے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بظاہر لگتا ہے کہ آپریشن کے باعث انہوں نے وقتی طور پر اپنی سرگرمیوں کو محددو کر دیا تھا ۔ اور اس وقفے کے بعد انکی جانب سے جو پہلا ہی جواب آیا وہ اس قدر بھرپور تھا کہ اس نے حکومت ہی نہیں بلکہ سیکورٹی اداروں کیساتھ ساتھ ہر شہری کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے مسلح افواج اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں اس حوالے سے ان کا عزم اور ان کی جانب سے دی جانے والی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی اسی طرح کا عزم موجود ہے ؟ کیونکہ اگر حکومت یا قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں کمزوری دکھائی گئی تو خدانخواستہ ہماری افواج کی جانب سے دی جانیوالی قربانیاں بھی ضائع ہو سکتی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشتگردی کے واقعات میںرونما ہونیوالی کمی سے حکومت کسی حد تک اس خوش فہمی کا شکار دکھائی دیتی تھی کہ دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے ۔ تحریک طالبان کی جانب سے بھی دہشتگردانہ سرگرمیاں ترک کرنے کے اعلان نے اس خوش فہمی کو مزید تقویت دی یہی وجہ تھی کہ ایک بار پھر سکیورٹی کے معاملات کسی حد تک عدم توجہی کا شکار دکھائی دئیے جسکا فائدہ دہشتگرد قوتوں نے اٹھایا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب کو چند روز پیشتر دہشتگردوں کے شہر میں داخلے کی اطلا ع دی جا چکی تھی سوال یہ ہے کہ کیا حکومت پنجاب نے اس اطلاع کو سنجیدگی سے لیا یا اسے سنی ان سنی کر دیا ۔واقعے کی سنگینی تو یہی ظاہر کرتی ہے کہ پنجاب حکومت اس معاملے پر سنجیدہ نہیں تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ دہشتگرد ایک پھر ہمارے سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں کو باآسانی چکما دے کر ایسے علاقے میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے جو حساس ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ دہشتگردوں کی جانب سے سکیورٹی انتظامات کو ناکام بناتے ہوئے حساس ترین علاقے میں داخل ہونے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی اس نوعیت کے بے شمار واقعات ہو چکے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج تک کسی کو بھی اس قسم کی غفلت کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی یہی وجہ ہے کہ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسر ی واردات رونما ہوتی چلی گئی ۔ سنگین سے سنگین کارروائی کے بعد بھی ذمہ داران اپنے عہدوں پر ایسے متمکن دکھائی دئیے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔یہی وہ واقعات تھے جنہوں نے دنیا میں ہمارے تشخص کو بری طرح مجروح کیا ۔ اسلام آباد کے دھرنوں سے زیادہ ہمارا تشخص احتساب کا نظام اور قانون کی حکمرانی نہ ہونے سے مجروح ہوا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے سے لے کر سانحہ واہگہ بارڈر تک کیا کسی نے کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کیا کسی سے پوچھا گیا کہ اس نے اپنی ذمہ داری سے غفلت کا مظاہرہ کیوں کیا ؟ نہیں ہمیں ایسی کوئی تاریخ نہیں ملتی ۔ کہتے ہیں ایسا مہذب معاشروں میں ہوتا ہے تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ ہم کسی غیر مہذب معاشرے میں زندہ ہیں۔جہاں نا حق کا خون ہوتا ہو اور جہاں مظلوم کو انصاف نہ ملتا ہو وہ معاشرے غیرمہذب ہی ہوا کرتے ہیں ۔ محسن انسانیت ، اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل کا معاشرہ کیا اپنی انہی حرکات کی وجہ سے غیر مہذب معاشرہ نہیں کہلاتا تھا اور کیا ختم المرسلین ؐنے اسلامی تعلیمات سے اس معاشرے کو ایک مہذب معاشرے میں تبدیل نہیں کیا تھا ۔ لہٰذا ہمیں اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کیلئے اپنے معاشرے کو پہلے ایک مہذب معاشرے میں تبدیل کرنا ہو گا ، احتساب اور قانون کی بالادستی کا نظام قائم کرنا ہو گا ۔ وگرنہ مصنوعی انتظامات سے ہم کبھی اس منزل کو نہیں پا سکتے جن کے حصول کیلئے ہم گذشتہ کئی برسوں سے کوشاں ہیں ۔ ایسے واقعات کو روکنے کیلئے سیکورٹی انتظامات کی اہمیت اپنی جگہ سب سے پہلے حکومت کو چاہیے کہ وہ متعلقہ اداروں کے ان افسران کیخلاف کارروائی کرے جو شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں تاکہ ان کے بعد آنے والے اپنی ذمہ داریوں کا اچھی طرح احساس کر سکیں ۔ اب کچھ بات ہو جائے وفاقی کابینہ میں رودبدل کی تو وزیر اعظم اس سلسلے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائے ۔ذرائع کے مطابق انہیں ان فیصلوں میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے اگرچہ وہ اب تک اس معاملے پر پارٹی میں سیر حاصل مشاورت کر چکے ہیں لیکن بعض نام ان کیلئے خاصی مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں جن میں ان کے کچھ پرانے اور دیرینہ ساتھی شامل ہیں تو کچھ نئے نام ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے موجودہ وزراء ایڈہاک ازم کی صورتحال سے دوچار ہیں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ وہ اگلے مرحلے میں کابینہ میں ہو گا بھی یا نہیں ۔ اس سے ایک طرف تو کابینہ کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے تو دوسری جانب یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ ایڈہاک ازم کی شکار حکومت بھلا دہشتگردی جیسے گھمبیر مسئلے کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے ۔ ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks