چھت پہ مہتاب نکلتا ہوا سرگوشی کا
اور پازیب کی جھنکار سے زینہ روشن
اجنبی دھوپ میں جلتے ہوئے رشتوں کے شجر
گھر کے آنگن میں مناجات کا پودا روشن
کانپتے ہاتھوں میں دلدار دعاؤں کے چراغ
اور اشکوں کے ستاروں سے مصلیٰ روشن
سرپھری لہروں سے لڑتے ہوئے بازو تھک جائیں
پھر بھی آنکھوں میں رہے کوئی جزیرہ روشن
کل کی دنیا کی بنا ڈال رہا ہے کوئی
ننھے ہاتھوں میں ہے مٹی کا گھروندا روشن
آنکھیں ایسی ہوں کہ جل جائیں سیاہی کے ورق
انگلیاں ایسی کہ تحریر کا سینہ روشن
***
Similar Threads:
Bookmarks