کہیں خیام لگیں قریۂ وصال بھی آئے

شبِ سفر میں کبھی ساعتِ زوال بھی آئے

کسی افق پہ تو ہو اتصالِ ظلمت و نور
کہ ہم خراب بھی ہوں، اور وہ خوش خصال بھی آئے

سخن میں کب سے ہے روشن یہ کیا ضروری ہے
کہ وہ ستارۂ مطلع مثال بھی آئے

سنا ہے سیر کو نکلی ہوئی ہے موجِ نشاط
عجب نہیں طرفِ کوچۂ ملال بھی آئے

ہمیں عطیۂ ترکِ طلب قبول نہ تھا
سو ہم تو اس کی عنایت ہی خاک ڈال بھی آئے

***




Similar Threads: