زوالِ عمر کی افسردگی میں پھول کھلا
ہوائے خوش بدنی میرے جی میں پھول کھلا
یہ آگ تیرے ہی افسوں کی ہے لگائی ہوئی
تری سزا ہے کہ اب آگ ہی میں پھول کھلا
بہار کب سے سرِ کوئے شب رکی ہوئی ہے
کوئی کہو کہ ذرا روشنی میں پھول کھلا
نسیم حجرہ نشیں لوگ انتظار میں ہیں
دریچے کھول، ہماری گلی میں پھول کھلا
سمجھ لرزتی لوؤں کو دعائے موسمِ وصل
چراغ موج پہ رکھ دے، ندی میں پھول کھلا
****
Similar Threads:
Bookmarks