جب بھی کی ہم رہیِ بادِ بہاری ہم نے
خاک پر آگے نظر اپنی اتاری ہم نے
ہم ہر اک شخص کی دعوت پہ کہاں جاتے ہیں
پھیر دی ہے مہ و انجم کی سواری ہم نے
موجِ خوں نے کسے سیراب کیا ہے اب تک
لے کے کیا کرنا ہے یہ چشمۂ جاری ہم نے
عمر بھر ہم سے وہ اک حرف کی دوری پہ رہے
اور نہ سیکھا ہنرِ عرض گزاری ہم نے
بانوئے شہر کو ہے ہم سے تقاضا بیکار
اپنے دلبر کی نہ کی آئینہ داری ہم نے
****
Similar Threads:
Bookmarks