وہ خدا ہے کہ صنم ہاتھ لگا کر دیکھیں
آج اس شوخ کو نزدیک بلا کر دیکھیں
ایک جیسے ہیں سبھی گلبدنوں کے چہرے
کس کو تشبیہہ کا آئینہ دکھا کر دیکھیں
کیا تعجب کوئی تعبیر دکھائے دے جائے
ہم بھی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھیں
جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کم بخت
اب تکلف کی یہ دیوار گرا کر دیکھیں
خیر، دلّی میں تو اوراقِ مصور تھے بہت
لاؤ، اس شہر کی گلیوں میں بھی جا کر دیکھیں
کون آتا ہے یہاں تیز ہواؤن کے سوا
اپنی دہلیز پہ اک شمع جلا کر دیکھیں
وہ سمجھتا ہے یہ اندازِ تخاطب کہ نہیں
یہ غزل اس غزل آرا کو سنا کر دیکھیں
****
Similar Threads:
Bookmarks