ایک ہمیں ہی اے سحر نیند نہ آئی رات بھر
زانوئے شب پہ رکھ کر سر، سارے چراغ سو گئے
اہلِ جنوں کے دل شکیبؔ نرم تھے موم کی طرح
تیشۂ یاس جب چلا تودۂ سنگ ہو گئے
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
میٹھے چشموں سےخنک چھاؤں سے دور
زخم کھلتے ہیں ترے گاؤں سے دور
کتنی شمعیں ہیں اسیر فانوس
کتنے یوسف ہیں زلیخاؤں سے دور
جنت فکر بلاتی ہے چلو
دیر و کعبہ سے کلیساؤں سے دور
جستجو ہے در یکتا کی شکیب
سیپیاں چنتے ہیں دریاؤں سے دور
کشتِ امید سلگتی ہی رہی
ابر برسا بھی تو صحراؤں سے دور
داغِ شکست دوستو دیکھو کسے نصیب ہو
بیٹھے ہوئے ہیں تیز رو سست خرام تو گئے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks