کتنی گم سم مرے آنگن سے صبا گزری ہے
اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے
کتنی رعنائیاں آباد ہیں میرے دل میں
اک خرابہ نظر آتا ہے مگر باہر سے
کب سے ہوں حسرتی، یک نگہِ گرم، کہ جو
محفلِ شوق کے آداب مجھے سمجھا دے
مجھ کو زنداں میں بھی مل جائے گا عنوانِ جنوں
نگہتِ گُل کو کریں قید خیاباں زادے
مانندِ صبا جدھر گئے ہم
کلیوں کو نہال کر گئے ہم
چلنا تھا جہاں محال یارو
اس راہ سے بھی گزر گئے ہم
ہنس ہنس کے گلے ملے قضا سے
تکمیلِ حیات کر گئے ہم
تا حدِّ خیال لالہ و گُل
تا حدِّ نظر ببول یارو
کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر
میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رخسار کا شہر
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks