محبت کا ترانہ کوئی چھیڑو
کسی کے پاس شہنائی تو ہو گی
کوئی صحرا سے آسی کو بلا لو
حرارت سے شناسائی تو ہو گی
شور مٹی، زہر پانی اور کچھ لُو کے تھپیڑے
جل گئے کتنے شجر، اس شہر کی آب و ہوا سے
خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جاؤں گر، اس شہر کی آب و ہوا سے
ہے تقاضائے غیرتِ امروز
زورِ بازو پہ انحصار کریں
پورا ہے گو چاند مگر
کالی کالی ہیں راتیں
گر مرے ساتھ چلیں تو بھی عنایت ہو گی
آپ کا ساتھ بھی، سرکار! ضروری تو نہیں
وہ کیا تھا، چیختے تھے سنگ ریزے
ابھی جس شہر میں میرا گزر تھا
وہ رہتا کس طرح پتھر فضا میں
کہ آسی آئنے جیسا بشر تھا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks