یہ تو لہو کے چھینٹوں سے کچھ اور بھی نور بکھیرے گی
صبحِ ستم کو ماجد! شب آثار کہیں، کیا کہتے ہو
اُجڑنے کی خبر ٹہنی سے ٹہنی تک نہیں پہنچی
چمن میں سے ہُوا مِنہیٰ، شجر آہستہ آہستہ
سانس میں غلطاں
گرد کے طوفاں
ا چّھی قدروں کو اپنانا بات گئے وقتوں کی ہے
آج تو جس میں بھی ہے اُس کو سفلہ پن انعام لگا
ہونٹ مانگوں وہ تپش جن سے، سخن کی جھلکے
اور درونِ رگِ جاں، خون مچلتا مانگوں
میں کہ خوشحال ہوں، خوشحال ہوں خاصا لیکن
غیر کے ہاتھ پہ گروی ہیں خزانے میرے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks