اس گاؤں کی آبادی بس اتنی ہے
شہر سے بھاگ کے آنے والا اور میں ہوں
ماں نے کاٹھ کی روٹی بھیجی ہے یہ کہہ کر
بھوک لگے تو اس کو کھایا جا سکتا ہے
حضرت سائیں فرید اگر دیں ساتھ ہمارا
اب بھی ویراں تھل کو بسایا جا سکتا ہے
کچھ سخن مشورہ کروں گا میں
اس کی آنکھیں پڑھا کروں گا میں
ریت پر پاؤں جم نہیں سکتے
ختم یہ سلسلہ کروں گا میں
اس کی تصویر لاؤں گا گھر میں
اس سے باتیں کیا کروں گا میں
چاند ناراض ہو گیا تو ندیم
گھر میں تنہا رہا کروں گا میں
زمیں کو پہلے سورج دھوپ کا پیوند کرتا ہے
پھر اس کے بعد ستلج بھی کنارا چھوڑ دیتا ہے
سوچوں ہوں کٹ ہی جائے گی تنہا تمام عمر
لیکن تمام عمر، خدارا کوئی تو ہو
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks