کر رہا تھا میں توقع اس سے رحمت کی مگر
وہ بڑھاتا ہی گیا میری سزا ہر لمحہ اور
غم سے سب ہارے ہوئے تھے زندگی کی دوڑ میں
سورما بھی تھے مگر جیتا ہوا کوئی نہ تھا
راز تھے احباب اپنے دوست اور محبوب بھی
جو نبھاتا ایک رشتہ درد کا ، کوئی نہ تھا
بانٹ دے سب میں یہ خوشیاں جو ملی ہیں تجھ کو
اس سے پہلے کہ کوئی ان کو چرا لے جائے
وہ رقیبوں کا ہو گیا پھر بھی
بے سبب ایک آس سی کیوں ہے
فریبِ عقل ہے بس وقت کیا ہے
کہیں جاتا نہیں اور چل رہا ہے
یہاں آ کر گزر جانا ہے سب کو
کوئی منزل نہیں ، بس راستہ ہے
خدا نے دیکھ کے تابِ تجسسِ انساں
نظر پہ حد سی لگا دی ہے آسماں کیا ہے
بس ایک غیب کی تلوار یہ خدائی ہے
پھر اس کے سامنے فریاد کیا ، فغاں کیا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks