کھینچے ہے مری طبعِ سخن اپنی ہی جانب
اور گردشِ دوراں ہے کہ دکھلائے سماں اور
ہر لحظہ میں آزادیِ جاں کا تھا طلب گار
ہر گام پڑی پاؤں میں زنجیرِ گراں اور
کس طرح سے اچھا ہو وہ بیمار کہ جس کو
دُکھ اور ہو، دیتے ہوں دوا چارہ گراں اور
جب اپنا سُر پاتال ہوا
تب وحیِ نفَس انزال ہوا
اس وقت کا کوئی انت نہیں
یہ وقت تو ماہ و سال ہوا
وہی ایک خلش نہ ملنے کی
ہمیں ملتے دسواں سال ہوا
ہر اچھی بات پہ یاد آیا
اک شخص عجیب مثال ہوا
کس بات کو کیا کہتا تھا میں
تم کیا سمجھے یہ ملال ہوا
اک رانجھا شہر کراچی میں
اک رانجھا جھنگ سیال ہوا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks