دُکھتا ہے بدن کہ پھر ملے وہ
مل جائے تو روح کو دُکھا دے
اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت
ساری عمر تماشا ٹھہری ہجر و وصال کی راہوں کا
جس سے ہم نے پیار کیا وہ نکلا ہے بے مہر بہت
بات کسی سے بھی کرو بات کسی کی بھی سنو
بیٹھ کے کاغذوں پہ تم نام وہی لکھا کر و
دوستو ،خون شہیداں کا اثر تو دیکھو
کاسۂ سر لیے آئ ہے سحر تو دیکھو
ہر آواز زمستانی ہے ، ہر جذبہ زندانی ہے
کوچۂ یار سے دار و رسَن تک ایک سی ہی ویرانی ہے
آپ بھی کیسے شہر میں آ کر شاعر کہلائے ہیں علیم
درد جہاں کمیاب بہت ہے ، نغموں کی ارزانی ہے
تم نے بھی میرے ساتھ اٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہوں کہ راہِ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں
جو کچھ بھی ہوں میں اپنی ہی صورت میں ہوں علیمؔ
غالبؔ نہیں ہوں ، میرؔ و یگانہؔ نہیں ہوں میں
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks