اس نے تنہا کبھی نہیں چھوڑا
وہ بھی زنداں میں ہے اسیر کے ساتھ
آنے والا ہے اب حساب کا دن
ہونے والا ہے کچھ شریر کے ساتھ
شب دعاؤں میں تر بتر میری
صبح اک خوابِ دل پذیر کے ساتھ
اہلِ دل کیوں نہ مانتے آخر
حرف روشن تھا اس حقیر کے ساتھ
بتلاؤ تو یہ آب و ہوا آئی کہاں سے
کہنے کو تو تم لہجہ و تاثیر ہوئے سب
بس یوں ہی موجیں بھریں یہ طائران خدوخال
بس یوں ہے دیکھا کریں ہم گلشن گلزار دوست
ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جا تی ہیں
کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی
میں اپنے وجود کا ہوں شاعر
جو لفظ لکھوں گا سب لکھو گے
اپنا احوال سنا کر لے جائے
جب مجھے چاہے منا کر لے جائے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks