خوف ہے تم کو گر زمانے کا
آنکھ سے ہی سلام ہو جائے
وہ ڈرتا تھا کہ رونے کی سزا بھی ہو گی شاید
یہی رو رو کے کہتا تھا کہ وہ رویا نہیں تھا
ستارے لاکھ چلے اس کے ساتھ ساتھ مگر
سحر کے ہوتے ہی پھر آسماں ہوا تنہا
جنونِ راز کی شدت تھی دیکھنے جیسی
وہ ایک آئینہ لے کر بہت ہنسا تنہا
وقت کے ساتھ بدلتے ہیں ہمارے رشتے
بس ضرورت کے زمانے میں ہیں سارے رشتے
ہو رہے ہیں میرے دل کے جتنے ٹکڑے بار بار
اس سے ہوتا جا رہا ہوں آشنا ہر لمحہ اور
کس قدر بچ کر چلا میں کتنا آہستہ چلا
مڑ کے جب دیکھا تو اپنا نقشِ پا کوئی نہ تھا
جس کا جی چاہے فقیروں کی دعا لے جائے
کل ہمیں جانے کہاں وقت اٹھا لے جائے
اس لیے کوئی جہاں سے نہ گیا کچھ لے کر
کیا ہے دنیا میں ، کوئی ساتھ بھی کیا لے جائے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks