انساں کا ہو گا ہا تھ اس میں
اللہ کا جو غضب لکھو گے
صدیوں میں وہ لفظ ہے تمھارا
اک لفظ جو اپنا اب لکھو گے
کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے
ہو سخنور کوئی ایسا پیدا
جو سخن میرا چرا کر لے جائے
وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے
کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے
ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا
سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے
یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks