کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ
آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ
اک محمد مصطفے ٰ ساروں کے بیچ
اس ہجرتی کو کام ہوا ہے کہ رات دن
بس وہ چراغ اور وہ دیوار دیکھنا
اس وحشتی کا حال عجب ہے کہ اس طرف
جانا بھی اور جانبِ پندار دیکھنا
مہرباں لوگ مرا نام جو چاہے رکھ لیں
ان کے منہ سے تو مجھے ننگ ہے انساں ہونا
اُس نے پوچھا ہے بڑے پیار سے کیسے ہو علیمؔ
اے غمِ عشق! ذرا اور فروزاں ہونا
سو کرتَبوں سے لکّھا گیا ایک ایک لفظ
لیکن یہ جب اٹھا کسی اعجاز سے اٹھا
یا رب کوئی ستارۂ امّید پھر طلوع
کیا ہو گئے زمین کے آثار دیکھنا
دیکھا تھا خواب شاعرِ مومن نے اس لیے
تعبیر میں ملا ہمیں تلوار دیکھنا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks