قامتِ موزوں تصوّر میں قیامت ہو گیا
چشم کی گردش نے کارِ فتنۂ دوراں کیا
بعد شاعر کے ہوا مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا
پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا
خراب قصر ِ تن کا ہمارے ستوں کیا
جامے سے جسم کے بھی میں دیوانہ تنگ ہوں
اب کی بہار میں اسے نذر ِ جنوں کیا
اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا
شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہر غنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطرہ ِ شبنم پیدا
میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا
آئینہ خانے تھے نظاروں کے بیچ
میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر
اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ
وحشت اُسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا
پاگل کو جیسے چاند کا دیدار دیکھنا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks