کوئی عشق میں مُجھ سے افزوں نہ نکلا
کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا
بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر
کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا
جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری
کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا
کب افسانۂ زلفِ شب گوں نہ نکلا
ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا
کب افسانۂ زلفِ شب گوں نہ نکلا
سوار اس تیغ زن کو دیکھتا ہے جو وہ کہتا ہے
ہمارا خون حاضر ہے، اگر رنگواؤ توسن کو
شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks