اب تیرے میرے بیچ ذرا فاصلہ بھی ہو
ہم لوگ جب ملیں تو کوئی دوسرا بھی ہو
چپ چاپ اس کو بیٹھ کے دیکھو ں تمام رات
جاگا ہوا بھی ہو ،کوئی سویا ہو ابھی ہو
لفظوں کے میل جول سے کیا قربتیں بڑھیں
لہجوں میں نرم نر م شرافت، غزل سے ہے
جام ٹوٹے ،صراحیاں ٹوٹیں
یہ بھی اک قتل عام ہے ساقی
وقتِ رُخصت کہیں تارے کہیں جگنو آئے
ہار پہنانے مجھے پھُول سے بازو آئے
اُس نے چھوکر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد مری آنکھ میں آنسو آئے
جو دُکھ سُکھ بانٹ سکے ،ہم اس کو عورت کہتے ہیں
ورنہ ہر اچھی صورت کو پتھر کی مورت کہتے ہیں
یہ رام جنم بھومی کا لہو، یہ بابری مسجد کی لاشیں
تم اُن کو مذہب کہتے ہو، ہم وحشی سَیاست کہتے ہیں
اس ملک میں ہندو ، مسلم، سکھ، سب پاگل ہوتے جاتے ہیں
ملّا ، پنڈت، نیتا اس کو اللہ کی رحمت کہتے ہیں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks