پھرتے رہتے ہیں ہم محبت میں
مضمحل ناتواں اداس اداس
کبھی کسی کے لیے خود کو بے قرار کیاَ؟
تمام عمر محبت کا انتظار کیا
کسی کو سونپی کبھی اپنے وقت کی تقسیم ؟
کبھی کبھی تیری یادوں سے کاروبار کیا
کوئی تضاد کوئی اختلاف اس دوراں؟
غموں کو کُند کیا دل کو تیز دھار کیا
بتاؤ دُکھ کی ریاضت میں کیا کیا تم نے ؟
اجل کو پھول کیا، زندگی کو خار کیا
دکھ ایسا دریا ہے جو
آنکھ کے رستے بہتا ہے
یوں ہی بے سبّب نہ پھرا کرو، کوئ شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چپکے چپکے پڑھا کرو
وہ کیا تھا جسے ہم نے ٹھُکرا دیا
مگر عُمر بھر ہاتھ ملتے رہے
زمانہ کچھ نہیں بدلا،محبت اب بھی باقی ہے
محبت زندگی کے باغ میں پھولوں کی ٹہنی ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks