تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
نو چکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات
راحت کا ہوش ہے کسے آتش بغیر یار؟
بالیں ہیں خشت ، خاک ہے بستر تمام رات
کسے نیند آتی ہے اے صنم، ترے طاقِ ابرو کی یاد میں
کبھی آشنائے تہِ بغل، سرِ مرغِ قبلہ نما نہیں
مرضِ جدائیِِ یار نے، یہ بگاڑ دی ہے ہماری خُو
کہ موافق اپنے مزاج کے نظر آتی کوئی دوا نہیں
مرے آگے اس کو فروغ ہو ، یہ مجال کیا ہے رقیب کی
یہ ہجومِ جلوۂ یار ہے ، کہ چراغِ خانہ کو جا نہیں
آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست
بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست
آئینہ سے بنے گا رُخِ یار کا بناؤ
شانے سے ہو گی زلفِ شکن در شکن درست
کم، شاعری بھی نسخۂ اکسیر سے، نہیں،
مستغنی ہو گیا جسے آیا یہ فن درست
آتش! وہی بہار کا عالم ہے باغ میں
تا حال ہے دماغِ ہوائے چمن درست
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks